7 ستمبر کا مذموم فیصلہ

عرب کے سرداروں اور قریش کے رؤساء نے مکہ میں ایک خصوصی اجلاس میں بالاتفاق یہ فیصلہ صادر کیا کہ چونکہ محمد (ﷺ) ہمارے دین میں بگاڑ پیدا کرتا ہے اس لئے اسے محصور کردیا جائے یا قتل کردیا جائے یا مکہ سے جلاوطن کردیا جائے۔ یہ مذموم تاریخی فیصلہ 7 ستمبر 622ء کو کیا گیا۔… جماعت احمدیہ کے خلاف بھی پاکستان قومی اسمبلی نے ایک ایسا ہی رسوائے زمانہ فیصلہ 7 ستمبر 1974ء کو کیا اور اس طرح اسلام کے دور اول کی دور ثانی کے ساتھ ایک گہری مماثلت پیدا کردی۔
اس مضمون پر مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کا ایک مختصر مگر ٹھوس تاریخی مقالہ ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ستمبر1997ء میں شامل اشاعت ہے۔
قریش کے مورث اعلیٰ قصی بن کلاب بن مرہ نے قریباً 440ء میں حکمران ہونے کے بعد دارالندوہ نامی ایک عمارت تعمیر کروائی جس کا دروازہ خانہ کعبہ کی طرف کھلتا تھا اور اس میں صرف قریش کے رؤساء ہی اہم قومی مشوروں کے لئے جمع ہوسکتے تھے جن میں چالیس سال سے کم عمر رکھنے والوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ مشرکین مکہ نے جب دیکھا کہ مظلوم اور بیکس مسلمانوں (جنہیں صابی کے تحقیر آمیز نام سے پکارا جاتا تھا) کے خلاف قتل و غارت، ایذا رسانی، ہنگامے، مظاہرے، بدزبانیاں اور بائیکاٹ کے سارے حربے ناکام ہوچکے ہیں تو انہوں نے غضبناک ہوکر صابیوں کے ’’تیرہ‘‘ سالہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے دارالندوہ میں خصوصی اجلاس بلایا جس میں ایک سو کے قریب رؤساء شامل ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک اور جبہ پوش شیطان سیرت شخص شیخ نجدی بھی اس کارروائی میں شامل تھا جس کے بارے میں تاریخ ابھی تک خاموش ہے کہ وہ اصل میں کون تھا اور کیسے دارالندوہ میں داخل ہوا اور مشورہ دینے کا حقدار قرار پایا۔
دارالندوہ میں مختلف مشوروں کے بعد ابو جہل نے یہ رائے دی کہ ہر قبیلہ کے منتخب نوجوان مشترکہ حملہ کرکے ایک ہی بار محمد (ﷺ) کا کام تمام کردیں اس طرح آل ہاشم کو سب عرب قبائل کے خلاف جنگ کرنے کی جرأت نہ ہوگی اور سب مل کر اس کا خون بہا ادا کردیں گے۔ شیخ نجدی نے ابوجہل کی پُرزور تائید کی چنانچہ یہی رائے ان سب کے اجتماعی فیصلے میں ڈھل گئی۔
خدائے علیم و خبیر نے آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی دشمنوں کے اس شرمناک منصوبے سے آگاہ فرماتے ہوئے یثرب کی طرف ہجرت کی اجازت دی اورحکم دیا کہ آج کی رات مکہ میں نہ گزاریں۔ آپؐ کے استفسار پر حضرت جبرئیلؑ نے بتایا کہ ابو بکر صدیق ؓ اس ہجرت میں آپؐ کے ساتھی ہوں گے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو سفر کی تیاری کا ارشاد فرماکر اور حضرت علی ؓ کے سپرد کفار کی امانات کرکے واپس اپنے گھر تشریف لے آئے۔ سرِ شام ہی مختلف قبائل کے چنیدہ مسلح نوجوانوں نے شہنشاہ نبوت کے مکان کو گھیرے میں لے لیا اور اپنے ناپاک ارادے کی جلد تکمیل کے لئے آنحضرتﷺ پر پتھر بھی پھینکے۔ اس دوران ابو جہل نے طنزاً کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو کہا کرتا ہے کہ اگر تم اس کی پیروی کرو گے تو عرب و عجم کے بادشاہ بن جاؤ گے اور آخرت میں تمہیں باغات ملیں گے جن سے تم کھاؤ گے اور اگر تم پیروی نہیں کروگے تو دنیا میں ہلاکت کا شکار ہوگے اور قیامت کے دن آگ میں پڑو گے۔ آنحضرتﷺ کے کانوں تک یہ بات پہنچی تو آپؐ نے فرمایا ’’ہاں! خدا کی قسم میں اب بھی یہی کہتا ہوں۔ ایسا ہی ہوگا اور تم انہی میں شامل ہو‘‘۔
تاریکی چھا جانے پر خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق دشمن کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اورآنحضرتﷺ کامل سکون اور وقار کے ساتھ اپنے گھر سے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہاں پہنچے اور کچھ وقت وہاں ٹھہرنے کے بعد ان کو ہمراہ لے کر یمن جانے والے راستے پر جبل الثور کی طرف چل پڑے اورپہاڑ کے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے اس کی بلند چوٹی میں واقع غار ثور میں داخل ہوگئے۔ ثور کا پہاڑ مکہ سے قریباً چھ میل کے فاصلے پر ایک اونچا پہاڑ ہے جس کی چوٹی سے بحر احمر بھی صاف دکھائی دیتا ہے ۔ باوجود یکہ مخالفین غار تک پہنچ گئے مگر وہ آنحضرت ﷺ کو نہ دیکھ سکے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ایک کبوتر کا جوڑا بھیج دیا جس نے اسی رات غار کے دروازہ پر آشیانہ بناکر انڈے دے دیئے اور ایک مکڑی نے اس پر اپنا گھر بنادیا جس سے دشمن دھوکا کھاکر ناکام واپس چلے گئے۔ اس دوران جب دشمن غار کے منہ پر پہنچا توحضرت ابوبکر صدیقؓ کی گھبراہٹ کو دور کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’لاتحزن ان اللّہ معنا‘‘ یعنی غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
دسویں صدی ہجری کے نامور مؤرخ اور فقیہ حضرت الشیخ حسین بن محمد نے اپنی تحقیق کے مطابق بیان کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے 28؍صفر کو غارِ ثور سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی۔ اگر ہم مصری ہیئت دان اور ماہر فلکیات علامہ محمد مختار پاشا کی مشہور کتاب التوفیقات الالہامیہ کی روشنی میں 28؍صفر 1ھ کو شمسی تاریخ میں تبدیل کریں تو یہ 11؍ستمبر 622ء بنتی ہے۔ اس حساب سے آنحضورﷺ 8،9،10؍ستمبر کو غار ثور میں جاگزیں رہے، 7۔8؍ستمبر کی درمیانی شب سفر میں گزری اور 7؍ستبمر کو دوپہر کے قریب دارالندوہ میں قریش کے ایوانِ حکومت میں شہید کرنے کا رسوائے عام فیصلہ کیا گیا۔ (طبقات ابن سعد عربی سے اردو ترجمہ علامہ عبداللہ العمادی، جلد1 صفحہ105)
تین راتیں اور دن غار ثور میں پناہ گزین رہنے کے بعد چوتھے روز (11؍ستمبر کو)علی الصبح آنحضورﷺ یثرب کی طرف روانہ ہوئے۔ قریش کی طرف سے آپؐ کو پکڑنے کا انعام سو اونٹ مقرر کیا گیا جس کے لالچ میں سراقہ بن مالک نے آپؐ کا تعاقب کیا لیکن جب اس کے گھوڑے کے چاروں پاؤں زمین میں دھنس گئے اور وہ گر پڑا تو وہ آنحضرتﷺ کی پناہ و معافی کا طلبگار ہوا۔ آپؐ نے اسے امن کی تحریر دی اور فرمایا ’’سراقہ! تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ہوں گے‘‘۔ یہ عظیم الشان پیشگوئی حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں پوری ہوئی۔ جب آنحضرتﷺ کے یثرب پہنچنے کی اطلاع مکہ میں آگئی تو پھر سراقہ نے اپنے واقعہ کا انکشاف کردیا۔ اس پر روسائے قریش کو مکہ میں اسلام پھیلنے کا خطرہ پیدا ہوگیا چنانچہ ابو جہل نے سراقہ کو دو اشعار میں یوں مخاطب کیا کہ اے بنی مدلج میں تمہارے احمق سردار سراقہ سے ڈرتا ہوں جو لوگوں کو محمد (ﷺ) کی مدد کے لئے برانگیختہ کرنے والا ہے۔ تم پر لازم ہے کہ اپنی جمعیت میں انتشار پیدا نہ کرو ورنہ عزت اور سیادت کے بعد تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اس پر سراقہ نے جواباً لکھا کہ اگر تو میرے گھوڑے کی ٹانگوں کے دھنس جانے کا واقعہ مشاہدہ کرلیتا تو بخدا حیرت زدہ رہ جاتا اور محمد (ﷺ) کے رسولِ برحق ہونے میں قطعاً شک نہ کر سکتا۔ آپؐ تو مجسم برہان ہیں پس کون ہے جو آپؐ کے سامنے دم مار سکے۔تجھے چاہئے کہ اپنی قوم کو آپؐ کا مقابلہ کرنے سے روک دے کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی فتح و ظفر کے جھنڈے عنقریب لہرانے لگیں گے۔
آنحضرتﷺ مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے اور قریباً اڑھائی سو میل کا فاصلہ طے کرکے 20 ستمبر 622ء کو قبا میں جلوہ افروز ہوئے جہاں انصار کے کئی خاندان آباد تھے۔ یہاں آپؐ نے حضرت عمرو بن عوفؓ کے ہاں قیام فرمایا اور خود صحابہ کے ساتھ مل کر تاریخ اسلام کی پہلی مسجد ’’قبا‘‘ تعمیر فرمائی۔ 4؍اکتوبر کو آپ یثرب پہنچے جو ایک قدیم شہر تھا جس کی بنیاد عمالیق نے 1600 سے 2200 قبل مسیح کے درمیان رکھی تھی۔… یثرب کی ساری آبادی نہایت بیتابی سے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے آپؐ کی منتظر تھی۔ قریباً 500 انصاری بزرگوں نے آگے بڑھ کر آپؐ کے قافلہ کا پُر جوش خیرمقدم کیا۔ مدینہ کی بچیوں نے خوبصورت نغموں سے چودھویں کے چاند کا استقبال کیا، گلی کوچوں میں ’’جاء محمد، جاء رسول اللہ‘‘ کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ اونٹنی پر سوار آنحضرتﷺ کے پُر انوار چہرے کو دیکھ دیکھ کر انصار باغ باغ ہوئے جاتے تھے۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ آپؐ کا قیام اسکے ہاں ہو۔ بعض عشاق فرط عقیدت سے اونٹنی کی باگ پکڑ کر التجا کرتے اور آپؐ ’’بارک اللہ فیکم‘‘ کہہ کر فرماتے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ اس وقت مامور ہے۔… رفتہ رفتہ اونٹنی آگے بڑھی اور جب اس جگہ پہنچی جہاں بعد میں مسجد نبوی اور آنحضورﷺ کے حجرے تعمیر ہوئے تو وہاں بیٹھ گئی۔ پھر فوراً اٹھی اور آگے کی طرف چند قدم جاکر پھر لوٹ آئی اور دوبارہ اسی جگہ پر بیٹھ گئی۔ تب آپؐ نے یہ فرماتے ہوئے یثرب کو اپنے مبارک قدموں سے برکت بخشی کہ معلوم ہوتا ہے کہ خدائی مشیت کے مطابق یہی ہماری منزل ہے۔ پھر یہ مقدس شہر مدینۃالنبیؐ کے نام سے موسوم ہونے لگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں