یورپ میں احمدیہ مسلم مشن کا آغاز اور مسجد فضل لندن کی تعمیر

(مطبوعہ سہ ماہی اسماعیل اپریل تا جون 2012ء)
(فرخ سلطان محمود)

تاریخ احمدیت کا ایک زرّیں باب
یورپ میں احمدیہ مسلم مشن کا آغاز اور مسجد فضل لندن کی تعمیر

یورپ میں ابتدائی مبلغین احمدیت
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے جب انگلستان میں اسلام اوراحمدیت کی تبلیغ کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے مبلغین بھیجنے کی خواہش ظاہر فرمائی تو حضرت مولوی محمد الدین صاحبؓ اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ؓ نے سب سے پہلے اپنے نام پیش کئے۔ جن میں سے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ کا انتخاب عمل میں آیا اور آپؓ 25؍ جولائی 1913ء کو انگلستان کے لئے روانہ ہوکر 11؍ اگست 1913ء کو ووکنگ میں (شاہجہاں مسجد میں مقیم) خواجہ کمال الدین صاحب کے پاس پہنچے۔ چونکہ خواجہ صاحب کھلے عام احمدیت اوراسلام کی تبلیغ کے حق میں نہیں تھے لہٰذا حضرت چوہدری صاحبؓ اکیلے ہی لندن کے مختلف مقامات پر جاکر تبلیغ کا فریضہ اداکرتے رہے۔
مارچ 1914ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد جب خواجہ کما ل الدین صاحب نے خلیفۂ وقت کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تو حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ، مئی 1914ء میں ووکنگ سے مستقل طور پر لندن تشریف لے آئے جہاں آپ کی تبلیغ سے 12 انگریز بھی مسلمان ہوئے۔ 1915ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ارشاد پر حضر ت قاضی عبداللہ صاحبؓ B.A; B.T. لندن میں بطور مبلغ تشریف لائے اور حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ واپس ہندوستان تشریف لے گئے۔ پھر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ نے اپریل 1917ء سے جنوری 1920ء تک انگلستان میں قیام فرمایا جس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر وہ امریکہ تشریف لے گئے۔ اس دوران اگست 1919ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ کو حضرت مولوی عبد الرحیم نیّر صاحبؓ کے ساتھ دوبارہ انگلستان جانے کا ارشاد فرمایا اور ان دونوں کو لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے جگہ خریدنے کی بھی ہدایت فرمائی۔
لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی اپیل
جنوری 1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی تو پہلے ہی دن 6 ہزار روپے نقد وصول ہوئے جبکہ 95 ہزار روپے کے وعدہ جات حاصل ہوئے جن میں 83 ہزار روپے کے وعدے احمدی خواتین کی طرف سے لکھوائے گئے تھے۔ جس جوش وخروش اورجذبہ واخلاص سے احمدی مردوں، عورتوں اوربچے بچیوں نے وعدہ جات لکھوانے کے ساتھ ادائیگی کرنا بھی شروع کی اس کے بارہ میں حضور ؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
’’ اس غریب جماعت سے اس قدر چندہ کی وصولی تائید الہٰی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی۔ اورمیں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کاخاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے۔ ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش وخروش دیکھنے کے قابل تھا اس کا وہی لوگ اندازہ لگاسکتے ہیں جنہوں نے اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔مرد،عورت اوربچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے ۔کئی عورتوں نے اپنے زیور اتار دیئے۔ اوربہتوں نے ایک دفعہ چندہ دے کر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا۔پھر بھی جوش کو دبتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا … جوش کا یہ حال تھاکہ ایک بچہّ نے جو ایک غریب اورمحنتی آدمی کابیٹا ہے۔ مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ان کو میں جمع کرتا رہتا تھا۔ وہ سب کے سب اس چندہ کے لئے دیتا ہوں۔نہ معلوم کن امنگوں کے ماتحت اس بچہ نے وہ پیسے جمع کئے ہوں گے۔لیکن اس کے مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان امنگوں کو بھی قربان کردیا۔ مدرسہ احمدیہ کے غریب طالب علموں نے جو ایک سو سے بھی کم ہیں اوراکثر ان میں سے وظیفہ خوار ہیں ۔ تین سو پچاس روپیہ لکھوایا۔ ان کی مالی حالت کو مد نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کے لئے اپنی اشد ضروریات کے پورا کرنے سے محرومی اختیار کرلی … بڑی تعداد ایسے آدمیوں کی تھی جنہوں نے اپنی ماہوار آمدنیوں سے زیاد ہ چندہ لکھوایا۔ جن میں سے ایک معقول تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے تین تین چارچار گنا چندہ لکھوایا … ایک صاحب نے جو بوجہ غربت زیادہ رقم چندہ میں داخل نہیں کرسکتے تھے۔ نہایت حسرت سے مجھے لکھا کہ میرے پاس اورتو کچھ نہیں میر ی دکان کو نیلام کرکے چندہ میں دیدیا جائے … لوگوں نے بجائے آہستہ آہستہ ادا کرنے کے زیورات وغیرہ فروخت کرکے اپنے وعدے اداکردئیے …‘‘۔
حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ نے بہت کوشش اورتگ ودو کے بعد پٹنی میں ایک قطعہ بمع مکان 2,223£ کے عوض ایک یہودی سے خریدا جس کی اطلاع جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت اقدس میں دی گئی تو حضور ؓ نے اس بارہ میں قادیان میں مجلس شوریٰ بلائی۔ مجلس شوریٰ نے سفارش کی کہ خلیفۃ ا لمسیح بنفس نفیس جا کر مسجد کا سنگ بنیاد رکھیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کا لندن میں ورود مسعود
مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک قافلہ کے ہمراہ مصر، اٹلی ، سوئٹزرلینڈ اورفرانس کے راستہ سے انگلستان میں 22؍ اگست 1924ء کو وروو فرمایا۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے اپنی ایک رؤیا میں دیکھا تھا کہ آپ ؓ سمندر کے کنارے ایک مقام پر اترے ہیں اور ایک لکڑی کے کُندے پر پاؤں رکھ کر ایک کامیاب جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر دوڑارہے ہیں کہ آواز آئی ہے: ’’ولیم دی کنکرر‘‘۔ اس طرح حضورؓ کی روحانی فتح اس دورہ انگلستان کے ساتھ مقدّر تھی۔جواس مسجد کی بنیاد کی صورت میں ظہور میں آئی۔
مسجد فضل کے سنگ بنیاد کی مبارک تقریب
19 ؍اکتوبر1924ء تک مسجد لندن کے لئے ایک لاکھ روپیہ مختلف صورتوں سے ا کٹھا ہوچکا تھا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اس مسجد کی بنیادی اینٹ رکھنے کے لئے ساؤتھ فیلڈ میں تشریف لائے تو ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی جبکہ موسم والوں کی پیشگوئی تھی کہ دھوپ نکلے گی۔ اس پر حضور ؓ نے فرمایا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بارش اس لئے ہورہی ہے کہ جن لوگوں میں اخلاص ہوگا وہی تشریف لائیں گے۔
اس تقریب کے انتظامات اورمہمانوں کو بر وقت اطلاع دینے میں تاخیر ہوجانے کے باوجود مہمانوں کی تعداد امید سے بڑھ کر رہی۔ مہمانوں میں مختلف حکومتوں کے نمائندے اورسفیرشامل تھے جن میں انگریز، جاپانی، جرمن، سربین، ایتھوپین، مصری، اٹالین، امریکن، انڈینز اور افریقن تھے۔ انگلستان کے وزیراعظم ریمزے میکڈونلڈ نے اپنے پیغام میں اس مبارک تقریب میں وقت پر شامل نہ ہوسکنے کی معذرت کی۔
مہمانوں کے لئے ایک خیمہ نصب تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تین بجے خیمہ میں داخل ہوئے تو مہمان تعظیماً کھڑے ہوگئے اورحضورنے تمام مہمانوں سے مصافحہ فرمایا۔ پھر مولانا عبدالرحیم درد صاحب امام مسجد لندن نے حاضرین کو خوش آمدید کہا۔ اور حضرت مصلح موعودؓ نے محراب کی جگہ پر مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے سے قبل حافظ روشن علی صاحب کو تلاوت قرآن کریم کرنے کاارشاد فرمایا۔ حافظ صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت میں سورۃ اللیل اور سورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضورؓ نے انگلش میں اپنا ایڈریس پڑھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس ایمان افروز تقریر اور اس تقریب کے بارہ میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ لکھتے ہیں :
’’حضرت نے جس وقت اس تقریرکوشروع کیا تو مجمع کی عجیب حالت تھی اورجماعت کے لوگوں پرایک کیفیت طاری تھی۔ وہ نقشہ آنکھوں کے سامنے تھاجب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی مسجد کی بنیاد رکھی تھی جووادی غیرذی زرع میں تھی اورجس میں کوئی خدا کانام لینے والانہ تھا۔ لندن اگرچہ غیرذی زرع تونہیں مگر اپنی مادی ترقی میں مست اورمگن ہونے کی وجہ سے روحانی طورپر غیرذی زرع ہے ۔ غرض ایک کیفیت ذوق کے ساتھ اخلاق اور تقویٰ کے ساتھ اس مسجد کی بنیاد حضرت نے رکھی۔‘‘
مسجد کی تعمیر
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہندوستان واپس تشریف لے جانے کے بعد مسجد کی بنیادوں کی کھدائی شروع ہوئی۔ اس وقت اخبارات کے نمائندے بھی حاضر تھے چنانچہ متعدد اخبارات نے اس حوالہ سے خبریں شائع کیں۔ تعمیر کا ٹھیکہ مسٹر زرونی اینڈ سنز کو دیا گیا۔ مسجد فضل لندن کی تعمیر کا سلسلہ 1926ء تک جاری رہا۔ مسجد کے آرکیٹیکٹ کا نام مسٹر اولیفینٹ تھا۔ تعمیر مس تھومس مینسن اینڈ سنز نے کی۔ مسجد کے لئے پہلا قالین خان بہادر سیٹھ احمد اللہ دین صاحب نے ایک صد پونڈ میں خرید کر دیا۔
مسجد کی افتتاحی تقریب کی تیاری
مسجد کے افتتاح کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کی خدمت میں درخواست کی گئی تو حضور ؓ نے فرمایا کہ افتتاح شاہ حجاز کے صاحبزادے شاہ فیصل سے کرایا جائے تو بہتر ہے۔ لہٰذا 28؍ اپریل 1926ء کو شاہ فیصل کو اس کی دعوت دی گئی۔ 23؍مئی 1926ء کوشاہ موصوف کے پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے خط آیا کہ امیر زید کی خدمت میں درخواست کی جائے۔ مگر باربار کی درخواست کے باوجود کوئی معقول جواب نہ مل سکا۔
بالآخر شا ہ نجد والئی مکہ نے حامی بھرلی کہ ان کا بیٹا مسجد کے افتتاح کے لئے حاضر ہوگا۔ اور ایک تار کے ذریعہ حضرت مولانا درد صاحب کو اطلاع کردی گئی کہ : ’’ ہم آپ کی درخواست قبول کرتے ہیں اور ہمارا بیٹا فیصل ستمبر کے پہلے ہفتہ میں جدّہ سے روانہ ہوگا۔‘‘
شاہ فیصل کی لندن آمد پر حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب نے اُن کا پُرتپاک خیر مقدم کیا۔ شاہ فیصل لند ن کے ایک ہوٹل میں رہائش پذیر ہوئے۔ لیکن بعد میں جب بھی ان سے ملنے کی کوشش کی گئی تو ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ بنادیا جاتا۔ ا ٓخر 29؍ستمبر1926ء کواُن کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ان کی تو بڑی خواہش تھی کہ وہ اس مبارک موقع پر حاضر ہوں مگر ہندوستان کے مسلمانوں نے اس معاملہ میں مشکلات پیدا کررکھی ہیں جو زبانی بیان نہیں کی جاسکتیں۔ اس اطلاع پر حضرت مولانا درد صاحب ؓ اورآپ کے ساتھی کارکنان کو بہت دکھ ہواجنہوں نے کئی ماہ اس لئے صرف کئے تھے کہ شاہ فیصل تشریف لاکر اس کا افتتاح کریں گے جس کی خاطر وہ اتنا لمبا سفر طے کرکے انگلستان پہنچے ہیں۔
اسی دوران محترم شیخ عبد القادر صاحب سابق وزیر پنجاب اورپریذیڈنٹ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا خط محترم درد صاحب کی خدمت میں ملا کہ ’’ چونکہ میں لندن آیا ہوا ہوں میں بھی مسجد کے افتتاح میں شامل ہونا چاہتا ہوں‘‘۔ اس پر محترم درد صاحب نے شیخ عبد القادر صاحب کو فون کیا کہ وہ ضرور تشریف لائیں۔ جب شیخ صاحب مسجدمیں تشریف لائے تو محترم درد صاحب نے سارا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح شاہ فیصل مسجد کے افتتاح کے لئے راضی تھے مگر اب انہوں نے نہ جانے کن وجوہات کی وجہ سے معذرت کردی ہے۔اس پر شیخ صاحب نے بھی ہرطرح سے کوشش کی کہ شاہ فیصل اس مسجد کا افتتاح کریں اور انہوں نے شاہ فیصل کے والد شاہ سعود کو تار بھی دیا کہ مَیں احمدیہ جماعت کو ذاتی طورپر جانتا ہوں… مگر بے سود۔ محترم شیخ صاحب ایک بار حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ کو کار میں بٹھاکر شاہ فیصل کے ہوٹل بھی تشریف لے گئے لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔
بالا ٓخر حضرت مولانا درد صاحبؓ اوردوستوں نے فیصلہ کیا کہ مزید انتظار بے سود ہے اور یہ کہ محترم شیخ عبدالقادر صاحب کو ہی اس نیک مقصد کے لئے تیار کیا جائے۔ چنانچہ محترم شیخ صاحب کو خداتعالیٰ نے یہ سعادت بخشی کہ وہ انگلستان میں بننے والی پہلی احمدیہ مسجد کا افتتاح کریں۔
افتتاحی تقریب
3؍ اکتوبر1926ء بروز اتوار دن کے تین بجے دوپہر مسجد کا باقاعدہ افتتاح عمل میں لایا گیا۔ مسجد کو جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا اورمہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہزارہا لوگ احاطہ میں اور سڑکوں پر جمع تھے ۔ نظم و نسق کے لئے حکومت کی طرف سے پولیس تعینا ت کی گئی۔ اس مبارک تقریب میں حصہ لینے والوں میں لارڈز، مہاراجہ، ممبران پارلیمنٹ، اخباروں کے نمائندے، ملکوں کے سفیر، مسلم اورغیر مسلم ہرطبقہ کے لوگ اس میں شامل تھے۔
جب مسجدکا افتتاح شروع ہؤا تو حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحبؓ مبلغ انچارج انگلستان نے قرآن کریم کی تلاوت کی جس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیغام پڑھ کر سنایا۔ اس پیغام میں حضور انورؓ نے سب سے پہلے محترم شیخ عبدالقادر صاحب اور دوسرے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا جو اس تقریب میں شامل تھے ۔ حضور ؓ نے اپنے پیغام میں فرمایا:
’’…یہ خدائے واحد کی پرستش کی طرف بلاتی ہے ۔ اس خدا کی طرف جس نے ہمیں اورہمارے باپ دادوں کو پید اکیا۔ جو ہماری اورہمارے باپ دادوں کی پرورش کررہا ہے۔ اورجس کی طرف ہمارے باپ دادے لوٹ کر جائیں گے۔وہ اکیلا خدا ہے آسمان میں بھی اورزمین میں بھی۔ اوپر بلندیوں میں بھی اورنیچے پاتا ل میں بھی اس کی بادشاہت ہے ۔ سب محبت کرنے والوں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے ۔سب محسنوں سے زیادہ محسن۔جس کا رحم تو رحم ہے ہی۔لیکن جس کی سزا بھی محبت سے پُر اورشفقت سے لبریز ہوتی ہے۔ ہماری روح اس کے فضلوں کو دیکھ کر اس کے آستانہ پر گِرتی ہے ۔اورکہتا ہے اے قدوس! تیری بڑائی ہوتیرا نام انسانوں کے دلوں میں بھی اسی طرح بلند ہوجس طرح تیری وسیع قدرت کے مناظر میں بلند ہے۔ … ہم لوگوں کا مقصد اس مرکز توحید میں بیٹھ کر محبت اوراخلاص کے ساتھ واحد خدا کی پرستش کا رائج کرنا اوراس کی محبت کو قائم کرنا ہوگا۔ہم مذاہب سے منافرت اورتباغض کودور کرکے تحقیق کی سچی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اوراخلاق کی درستی اورظلم کے مٹانے کی سعی کریں گے۔ آقااورنوکر، گورے اور کالے ۔ مشرق اور مغرب کے درمیان تعلقات اخلاص اورحقیقی مساوات جس میں جائز فوقیتوں کا تسلیم کرنا شامل ہوگا، ہمارا مقصد ہوگا۔ اورہم اس موقع پر مسیحی دنیا سے بھی التجا کرتے ہیں کہ وہ اسلام کو تعصّب کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ بلکہ اس کے عیب نکالنے کی بجائے اس کی خوبیوں کی جستجو کرے۔ کیونکہ سچائی دوسرے کے عیوب نکالنے پر ظاہرنہیں ہوتی۔ بلکہ اپنی فوقیت ثابت کرنے سے ظاہرہوتی ہے۔ … اے خدا! تیرا جلال دنیا میں ظاہرہو اوریہ مسجد تیرے نام کوبلند کرنے اورتیرے بندوں کے دلوں میں محبت و اخلاص پیدا کرنے کا بڑا مرکز ہو۔ آمین۔‘‘
اس کے بعد حضرت مولانا درد صاحبؓ نے مسجد کی چاندی کی چابی خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب کے ہاتھ میں تھمادی اورانہوں نے خدائے واحد و رحمن کا بابرکت نام لیتے ہوئے اس مسجد کا افتتاح کرنے کی سعادت پائی۔
محترم شیخ صاحب نے اس بات کا افسوس کیا کہ ابن سعود والئی کعبہ تشریف لے آتے اور اس کا افتتاح کرتے توبہتر تھا۔ اورآپ نے اس کابرملااظہارکیا کہ اُن کا افتتاح پرتشریف نہ لانا دوسرے فرقوں کی مخالفت کے خوف کی وجہ سے ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ جب مَیں اس ملک میں تعلیم حاصل کررہا تھا تو میرے دل میں مسجد کی افادیت کاخیال آتا رہا ہے کہ جو مسلمان بغرض تعلیم و سیاحت انگلستان تشریف لاتے ہیں ان کی تسکین کے لئے ایک مسجد ہونی چاہئے ۔ مجھے اس بات کی بیحد خوشی ہے کہ میرا یہ خواب حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب اوران کی جماعت کی کوششوں سے پورا ہوا۔ … اسلام کے دوسرے فرقے اس فرقے پر خوش نہیں ہیں جن کی وجہ سے شہزادہ فیصل اس سعادت سے محروم رہے ہیں۔
آپ نے تمام مہمانوں اور ان کی حوصلہ افزائی کا شکریہ ادا کیا۔
خان بہادر صاحب کی تقریر کے بعد بعض دیگر معززین کی بھی تقاریر ہوئیں۔ جس کے بعد عصرکی نماز کا وقت ہوگیا۔ اذان حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ نے دی۔ نماز کی امامت حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحبؓ نے کی جس میں شیخ عبدالقادر صاحب کے علاوہ قریباً ایک سو مہمان شامل ہوئے۔
————————-
(نوٹ: یہ مضمون ’’تاریخ احمدیت‘‘ مرتّبہ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور ’’تاریخ مسجد فضل لندن‘‘ مرتّبہ حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل ؓ کی مدد سے قلمبند کیا گیا ہے۔)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں