یار کی یاد میں شب جو کاٹی دن تھا وہ تو رات نہ تھی – نظم

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جنوری 2007ء میں شامل اشاعت مکرم مبارک احمد ظفرؔ صاحب کی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

یار کی یاد میں شب جو کاٹی دن تھا وہ تو رات نہ تھی
اک مَیں تھا اور یاد تھی اس کی دوسری کوئی ذات نہ تھی
بستی میں جب چاند وہ نکلا نُور نہائی ساری رات
کس کا روزِ عید نہ تھا وہ رات شبِ بارات نہ تھی
فضلوں کا وہ مینہ برسا کہ روح تلک سب بھیگ گئے
دید کی دلہن مسکائی تھی کون کہے برسات نہ تھی
خوشیوں نے بے قابو ہوکر صحنِ دل میں رقص کیا
روح نے ذکر کے گھنگرو باندھے اَور تو کوئی بات نہ تھی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں