ہڑپہ کے آثارِ قدیمہ

ایک ماہر آثار قدیمہ جوناتھن مارک کی تحقیق کے مطابق ہڑپائی تہذیب بلوچستان کے بالائی علاقوں سے شروع ہوکر مغرب تک اور شمالی پاکستان، افغانستان اور انڈیا سے جنوب مغرب اور شمال تک پھیلی ہوئی تھی اور دو بڑے دریا سندھ اور گھاگر اسے سیراب کرتے تھے-
یہ تہذیب قدیم مصری تہذیب موسوپوٹامیہ (عراق) کی ہم عصر تھی- اس کے دو اہم مراکز ہڑپہ (جو دریائے راوی کے کنارے آباد تھا) اور موہنجوڈارو (جو دریائے سندھ کے کنارے واقع تھا) کی کھدائی 1921ء میں شروع ہوئی اور کئی بار تعطّل کے باوجود اب تک جاری ہے- ہڑپہ کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون مکرم نعیم طاہر صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’خالد‘‘ جولائی 1998ء میں شامل اشاعت ہے-
پانچ ہزار سال قبل دریائے راوی کے کنارے آباد شہر ہڑپہ وادی سندھ کی تہذیب کا سب سے بڑا شہر تھا- یہاں کے لوگ اپنے فن تعمیر، عمدہ مکانات، کشادہ اور سیدھی سڑکوں، خوبصورت گلیوں، کنوؤں اور پختہ زمین دوز نالیوں کا مکمل نظام رکھتے تھے اور کاریگری، فنون لطیفہ کے علاوہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے اپنی ہم عصر تہذیبوں سے زیادہ منظم اور ترقی یافتہ تھے- جوناتھن مارک کا کہنا ہے کہ ہڑپہ اور موہنجوڈارو شہری سہولیات کے حوالے سے جدید شہروں کا مقابلہ کرتے ہیں- ہڑپہ ٹاؤن پلاننگ کے جدید اصولوں کے مطابق تعمیر کیا گیا تھا- ٹیکسٹائل (کپڑے) کی صنعت کا معیار بہت اعلیٰ تھا-
ہڑپہ کا سب سے پہلا ذکر ایک انگریز سیاح مسین نے 1826ء کے اپنے سفرنامہ میں کیا لیکن واضح ذکر ایک ماہر آثار قدیمہ جنرل الیگزینڈر کننگھم نے 1856ء میں اپنی سالانہ رپورٹ میں کیا- لیکن اس رپورٹ پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا جب لاہور سے خانیوال تک ریلوے لائن بچھاتے وقت ٹھیکیداروں نے ہڑپہ کے ٹیلے کھود کر ہزاروں قیمتی اینٹیں نکال لیں اور ملبے سے لائن بچھانے کا کام لیا- پھر غریب دیہاتیوں نے ان تاریخی اینٹوں سے اپنے مکانات تعمیر کرلئے- آخر 1920ء میں حکومت نے ان ٹیلوں کو باقاعدہ اپنی تحویل میں لے کر کھدائی کا کام شروع کروایا-

ہڑپہ شہر کے کھنڈرات اپنے ہم عصر شہر موہنجوڈارو سے 400 میل دور اور ساہیوال سے قریباً 15 میل پر واقع ہیں- رقبہ سوا سو ایکڑ ہے – اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں متعدد آراء ہیں- بعض کا خیال ہے کہ اس کا پہلا نام ہری یوپا تھا جو بگڑ کر ہڑپہ بن گیا- ایک قریبی دربار کے مجاور کے مطابق یہ شہر تین دفعہ تباہ ہوا اور ہر دفعہ اس کا نام بدلا گیا- پہلے یہ ہری روپا تھا پھر ہرپالی بنا اور آخر ہرپال سے ہرپابنا جس کے بعد لوگوں نے اسے ہڑپہ کہنا شروع کردیا-
ہڑپہ کی تباہی کی وجوہات کے بارے میں بھی مؤرخین کی آراء مختلف ہیں- تاہم یہ بات قرین قیاس سمجھی جاتی ہے کہ چونکہ ہڑپا کے لوگ دریا کے کنارے آباد تھے اور ضروریات زندگی کا زیادہ تر انحصار دریا پر تھا لیکن جب دریا نے رُخ بدل لیا تو اِن تجارت پیشہ لوگوں کو زوال آنا شروع ہوگیا اور یہ رفتہ رفتہ نقل مکانی کرگئے-
ہڑپہ کے مکانات پختہ اینٹوں سے تعمیر کئے گئے تھے- یہاں کے عجائب گھر میں کھدائی سے ملنے والے دو انسانی ڈھانچے بھی رکھے گئے ہیں- تین ہزار قبل مسیح کے ہر قسم کے زیورات بھی ہیں جو سونے، چاندی، قیمتی پتھروں، تانبے، کانسی، سیپ اور مٹی کے بنے ہوئے ہیں-تانبے اور کانسی کے برتن ظروف سازی اور فن حرب کا پتہ دیتے ہیں- یہاں کے لوگ سیپ، گھونگے اور ہاتھی دانت کو کثرت سے استعمال میں لایا کرتے تھے- آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت فن مجسمہ سازی اپنے اوجِ کمال پر تھا-کھنڈرات سے پتھر کی بنی ہوئی بہت سی مہریں بھی ملی ہیں جن پر کسی جانور، انسان یا درخت کی تصویر یا تحریر کندہ ہے-
ہڑپہ کے لوگ اعشاری نظام سے واقف تھے- یہاں سے ملنے والے مکعب نما باٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی نظام پوری وادی میں رائج تھا-
ہڑپہ کے کھنڈرات سے دو قبرستانوں کا بھی انکشاف ہوا ہے- وہ لوگ مُردوں سے دو مختلف طرح سلوک کرتے تھے- یعنی یا تو انہیں دفن کر دیتے تھے یا مُردے کو جنگل میں رکھ دیا جاتا تھا اور جب جانور گوشت کھا جاتے تھے تو ہڈیاں ایک مٹی کے برتن میں رکھ کر دفن کردی جاتی تھیں- ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے- قبروں سے آرائش اور عام استعمال کی چیزیں بھی برآمد ہوئی ہیں- بعض مُردوں کی تدفین لکڑی کے صندوقوں میں بھی کی جاتی تھی-
ہڑپہ کے کھنڈرات میں امیر طبقہ کے مکانات بھی ملتے ہیں اور مزدوروں کے کوارٹر بھی- ایک بھٹی ملی ہے جس میں گائے کے گوبر کے اوپلے بطور ایندھن استعمال ہوتے تھے- ایک اناج گھر کے آثار بھی اہمیت کے حامل ہیں جو 50 x 20 فٹ کے دو حصوں پر مشتمل تھا-پانچ ہزار سال پہلے یہ اناج گھر دریا کے کنارے پر تھا لیکن اب دریا 7کلومیٹر دور سے گزرتا ہے- حفاظتی مقصد کے لئے شہر کے گرداگردکچی اینٹوں کی ایک تیس فٹ موٹی دیوار بھی بنائی گئی تھی-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں