ہم اور وراثت کے مختلف پہلو

وراثت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہر شخص اپنی اولاد کو مادہ تولید کے ذریعہ سے اپنی بعض عادات اور خواص منتقل کرتا ہے۔ یہ خواص انسانی Gene پر نقش ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے اس بارے میں بہت دلچسپ تحقیقات کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ Gene بھی ماحول سے متاثر ہوتے ہیں مثلاً اگر ایک چراگاہ میں کچھ بکریاں اور بھیڑیں چھوڑ دی جائیں تو جب اگا ہوا گھاس ختم ہو جائے گا تو بکریاں اگلے پاؤں اٹھا کر درختوں کے پتے کھانا شروع کردیں گی جبکہ بھیڑ کی یہ فطرت نہیں ہے۔ چنانچہ اکثر بھیڑیں بھوک سے مر جائیں گی اور اگر کوئی بھیڑ ماحول کی مجبوری سے متاثر ہوکر بکری کی طرح درختوں کے پتے کھانا شروع کردے تو وہ زندہ رہے گی اور یقینا یہ عادت اپنے بچوں میں منتقل کرے گی۔ یہ ارتقاء کی ایک مثال ہے … لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ بسااوقات انسان ’’کر یا نہ کر‘‘ کی سرحد پر کھڑا ہوتا ہے اور ایسا عمل کر سکتا ہے جو غیراخلاقی ہو۔ اس وقت اگر یہ سوچا جائے کہ یہ فعل اس کی آئندہ نسل پر کیا اثرات مرتب کر سکتا ہے تو اکثر افراد فوری طور پر نیک فیصلہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وراثت کے اس دلچسپ پہلو پر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ربوہ 10؍مئی 1997ء کی اشاعت میں مکرم ڈاکٹر صلاح الدین صاحب کا مضمون شامل اشاعت ہے۔
ایک ریسرچ میں یہ تجربہ کیا گیا کہ چھ ماہ اور ایک سال کی عمر کے درمیانی عمر کے بچوں کے ایسے گروپ کو جوہاتھ پاؤں کی مدد سے رینگ سکتے تھے ایک کمرہ میں اکٹھا چھوڑا گیا جہاں کچھ شراب کی بوتلیں بھی رکھی گئیں۔ بچوں میں نصف تعداد شراب نوش افراد کے بچوں کی تھی اور نصف شراب سے نفرت کرنے والے والدین کے بچوں کی۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ شراب پینے والے والدین کے بچوں کی اکثریت شراب کی بوتلوں کی طرف متوجہ ہوئی اور بوتلوں کو مونہہ سے لگانا اور ان کے ڈھکنوں کو سونگھنا شروع کیا جبکہ دوسرے بچے دیگر اشیاء کی تلاش میں رہے۔ اس قسم کے تجربات سے یہ تصدیق ہوئی کہ اگر ہم کوئی عادت ڈال لیں گے تو وہ عادت ہمارے جین میں منتقل ہو جائے گی اور پھر آگے وہ جین کہاں منتقل ہوگا…؟ اس بات کا امکان ہے کہ وہ عادت ورثہ میں اگلی نسلوں میں چلے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں