ہستی باری تعالیٰ کے 7 سائنسی دلائل

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ مارچ2007ء میں ہستی باری تعالیٰ کے حوالہ سے ریڈرز ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا ترجمہ مکرم محمد ادریس چوھدری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ اس مضمون میں سائنسی زاویہ سے ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت میں سات دلائل پیش کئے گئے ہیں:
اول: علم الحساب کے غیر مبدل قوانین کی رو سے ۔
یہ اتفاق نہیں ہے کہ زمین اپنے محور پر ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ہے۔ اگر یہ رفتار بدل کر فی گھنٹہ یکصد میل ہوجائے تو ہمارے دن رات کا موجود وقفہ دس گنا زیادہ لمبا ہوجائے گا۔ جس کے نتیجے میں لمبے دن کے دوران سورج کی تمازت ہماری سرسبزیوں کو جلا کر راکھ کر دے گی اور رات کی لمبائی کے دوران سبزہ زار سردی کی وجہ سے منجمد ہوجائیں گے۔ اسی طرح سورج سے ہماری زمین عین صحیح دوری پر واقع ہے ۔ ہم اس وقت سورج سے جو گرمی پاتے ہیں اگر اس کا نصف حصہ بھی ضائع ہوجائے تو ہم برف میں تبدیل ہوجائیں اور اگر سورج کی موجودہ گرمی میں نصف کے برابر حصہ زیادہ ہوجائے تو ہم بھن کر کباب کی مانند ہوجائیں۔
پھر کرہ ارض 23 ڈگری پر جھکا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں موسمی تغیر و تبدیل معرض وجود میں آتے ہیں۔ اگر یہ جھکاؤ نہ ہوتا تو سمندر کے آبی بخارات شمال اور جنوب کو منتقل ہوتے ہوئے راستہ میں برفانی تودوں کے انبار چھوڑ جاتے۔ اگر چاند ہم سے اپنی اصل دُوری کی بجائے پچاس ہزار میل دُور ہوتا تو سمندر کی لہریں اتنی بڑی ہوتیں کہ ایک دن میں دو مرتبہ تمام کرہ ارض پر پانی کا عبور ہوتا۔حتیٰ کہ پہاڑیاںبھی جلد اپنی جگہ سے ہل جاتیں۔ اگر زمین کی بالائی سطح صرف دس فٹ موجودہ حالت سے موٹی ہوتی تو ہمارے لئے آکسیجن کا حصول ناممکن ہوجاتا۔ اگر سمندر اپنی موجودہ گہرائی سے صرف چند فٹ مزید گہرا ہوتا تو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن ناپید ہوجاتیں۔ اسی طرح اگر ہماری فضا کچھ اور پتلی ہوجاتی تو فضا میں شہاب ثاقب جو ملیننز کی تعداد میں روزانہ جلتے ہیں وہ زمین کے مختلف حصوں سے ٹکرا کر جگہ جگہ آگ لگادیتے۔ پس زمین پر انسانی زندگی اتفاقی حوادث کا نتیجہ نہیںہے۔
دوم: زندگی ایک معمہ ہے جس کا نہ تو وزن ہے اور نہ ہی کوئی اطراف۔ ہر چند اس میں قوت ضرور پائی جاتی ہے۔ پانی، زمین اور ہوا پر زندگی کی بالادستی ہے اور انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے اجزاء میں منقسم ہو کر نئے جوڑ توڑ پیدا کریں۔ زندگی ایک سنگ تراش کی طرح ہے جو تمام موجودات کی تشکیل کی وجہ ہے۔ ہر درخت کے پتوں کی منفرد شکل، ہر پھول کا مختلف رنگ، پرندوں کا چہچہانا، کیڑوں مکوڑوں کا دوسروں کی آوازوں کا پہچاننا، زبان کا ذائقہ،… یہ سب زندگی کی موجودگی سے ہے۔ زندگی نے ہی پانی اور کار بالک ایسڈ کو کھانڈ اور لکڑی میں بدل دیا اور ایسے میں آکسیجن کا اخراج بھی ہوا جس نے بقائے زندگی کو ممکن بنا دیا۔
مادہ اولیٰ (Protoplasm) ایک غیر مرئی سا قطرہ ہے جس میں سے دیکھا جاسکتا ہے اور وہ لعاب کی مانند لگتا ہے۔ اس میں حرکت کی قوت پائی جاتی ہے اور وہ سورج سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ یہ ایک خلیہ (Cell) کے برابر ہے اور اس میں سے زندگی کا اصل شروع ہوتا ہے۔
سوم: حیوانات میں بھی عقل و شعور کے حیران کُن نشانات ملتے ہیں۔ سامن مچھلی سمندر میں سالہا سال گزارنے کے بعد بھی اپنی سابقہ رہائشگاہ والے دریا میں واپس لوٹ آتی ہے اور دریا کے اسی پہلو میں تیرتی ہے جس میں اُس کی پیدائش ہوئی تھی۔ اگر عمداً اُسے کسی دوسری ندی میں لاکر چھوڑ دیں تو سامن کو فوراً پتہ چل جاتا ہے اور وہ صحیح راستہ کی طرف روانہ ہوجاتی ہے۔
ایک سانپ نما مچھلی EEL جب سن بلوغت کو پاتی ہے تو اپنی رہائش سے نقل مکانی کرجاتی ہے۔ یہ مچھلیاں یورپ سے ہزاروں میل کا سفر کر کے شمالی امریکہ کے جزیرہ برموڈا تک چلی جاتی ہیں جہاں پر کہ سمندر کی گہرائی انتہائی زیادہ ہے۔ وہاں یہ مزید مچھلیوں کو جنم دیتی ہیں اور پھر موت سے ہمکنار ہوجاتی ہیں۔ نوزائیدہ مچھلیاں حیرت انگیز طور پر نہ صرف واپس اس ساحل کو جاپہنچتی ہیں جہاں سے ان کی پیش روآئی تھیں بلکہ اس دریا یا ندی نالہ کو بھی ڈھونڈ نکالتی ہیں جہاں سے ان کی پیش روؤں نے سفر شروع کیا تھا۔ اگرچہ EEL مچھلی ہر قسم کے پانی میں پائی جاتی ہے لیکن امریکی ساحل کی Eel کبھی بھی یورپ میں نہیں ملتی۔ اسی طرح یورپ کی Eel کو امریکی پانیوں میں پانا ناممکن ہے۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ یورپ کی Eel بہ نسبت امریکی Eel کے ایک سال بعد سن بلوغت کو پہنچتی ہے اور یہ محض اس لئے ہے کہ یورپین Eel کو ایک لمبا سفر درپیش آنے والا ہے۔
ایک قسم کی سیاہ بِھڑ جب ٹڈی دل پر غلبہ پاتی ہے تو زمین میں ایک سوراخ کھود کر ٹڈی دل کو عین صحیح جگہ پر کاٹتی ہے تا کہ وہ مر نہ جائے بلکہ نیم مردہ حالت میں سوراخ میں داخل ہوجائے۔ اس طرح سیاہ بھڑ اُسے گوشت کے طور پر محفوظ کر لیتی ہے اور پھر انڈے دیتی ہے تاکہ جب بچے پیدا ہوں تو انہیں کھانے کو کچھ مل سکے۔ اس کے بعد مادہ بھڑ اڑ جاتی ہے اور وہ بچوں کا منہ کبھی بھی دوبارہ نہیں دیکھ پاتی۔ لیکن بچے جب انڈوں سے نکلتے ہیں تو ٹڈی دل سے خوراک حاصل کرتے ہیں۔
چہارم: انسان میں جبلت سے بڑھ کر ایک صفت پائی جاتی ہے جس کا تعلق بحث کے بعد قائل کرسکنے سے ہے۔ کسی بھی جانور میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی کہ وہ اعدادو شمار میں حساب کرے۔ ہم جو کچھ بھی ہیں وہ محض اس وجہ سے ہے کہ آفاق پر مسلط ذہانت میں سے ہمیں بھی ایک شعلہ عطا کیا گیا ہے۔
پنجم: ڈارون کے وقت میں ہمیں جینز (Genes) کی حیرت انگیزیوں کا علم نہ تھا۔ جینز اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ صرف اعلیٰ قسم کی خوردبین سے ہی نظر آسکتے ہیں۔ جینز اور کروموسومز انسانی، حیوانی اور نباتاتی زندگی کے کلید بردار ہیں۔ زندگی کے خواص ان کے ذریعہ سے آئندہ نسل میں منتقل ہوتے ہیں۔ یہ ایک گہری کا رسازی اور بہم رسانی کی ایسی مثال ہے جس کا ممکن ہونا صرف ’’تخلیقی ذہانت‘‘ کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے۔
ششم: قدرت میں ہمیں ہر چیز متناسب انداز میں ملتی ہے اورغور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے غیر محدود دانش کار فرما ہے۔ کئی سال پہلے آسٹریلیا میں Cactus کے درخت لگائے گئے تا کہ ان کے ذریعہ حد بندی کا کام لیا جائے۔ آسٹریلیا میں ایسے کیڑے مکوڑے نہ پائے جاتے تھے جو Cactus کے لئے ضرررساں ہوں۔ چنانچہ اس درخت کی وافر دستیابی ہونے لگی اور ایک وقت تھا کہ وہاں پر انگلستان کے سارے حدود اربعہ کے برابر سوائے کیکٹس کے کچھ نہ تھا۔ شہر خالی ہونے لگے اور کئی فارم تباہ ہوگئے۔ چنانچہ ماہرین نے ایک ایسا کیڑا ڈھونڈ نکالا جو صرف کیکٹس پر ہی انحصار کرتا تھا اور اِس کیڑے کا کوئی دشمن آسٹریلیا میں موجود نہ تھا۔ چنانچہ آج صرف اس کیڑے کی بدولت آسٹریلیا میں کیکٹس کی پیداوار تناسب سے ہونے لگی ہے۔ اس طرح کے تناسب کے انتظامات قدرت خود مہیا کرتی ہے۔
بعض کیڑے مکوڑے ایسے بھی ہیں جن کی تعداد میں یکدم اضافہ ہونے لگتا ہے۔ لیکن یہ کیڑے زمین پر تسلط اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ ایسے کیڑوں میں پھیپھڑے نہیں ہوتے بلکہ سانس لینے کے لئے ایک نلکی ہوتی ہے ۔ کیڑے کا جسم تو بڑھتا ہے لیکن اس کے ساتھ نلکی نہیں بڑھتی۔ جسمانی نشوونما میں اس خامی کی وجہ سے ان کے تسلط کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔
ہفتم: یہی حقیقت کہ انسان میں یہ صلاحیت ودیعت کی گئی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں خیالات کو آماجگاہ پر لاسکتا ہے، ہستی باری تعالیٰ کا ایک اچھوتا ثبوت ہے۔ یہ صلاحیت دنیا میں کسی اور کو نہیں دی گئی۔ اسے ہم بعض دفعہ ’’تخیل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ صرف ایک انسان ہی اس قابل ہے کہ وہ غیر مرئی اشیاء کا ثبوت مہیا کرے۔ یہی انسانی تخیّل روحانی حقائق کی نشاندہی کرتا ہے اور اس عظیم صداقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ہستی ہر جگہ موجود ہے اور اس کی قربت جب ہمارے قریب ترین ہوتی ہے تو ہمارا دل اسے اپنے اندر آباد کر لیتا ہے!۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں