کیپٹن ڈگلس کا انصاف

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍مئی 2009ء میں کیپٹن ولیم مانٹیگو ڈگلس کے عدل و انصاف پر مبنی شاندار کارنامہ کو مکرم سید محمد احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے اپنے ذاتی مشاہدات کے تناظر میں بیان کیا ہے۔
اگست 1897ء میں پادری ہنری مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف اقدام قتل کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا اور اپنے ساتھ آریوں اور محمد حسین بٹالوی جیسے علماء کو بھی ملا لیا۔اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت حضرت اقدسؑ کو اس مقدمہ میں باعزت بری ہونے کی اطلاع دی۔ چنانچہ بٹالہ کی عدالت میں اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر ولیم مانٹیگو ڈگلس کے سامنے مقدمہ پیش ہوا تو انہوں نے حضورؑ کی عزت افزائی کرتے ہوئے عدالت میں کرسی دی اور تحقیق کے بعد آپؑ کو اس جھوٹے مقدمہ سے بری کیا۔ پیلاطوس ثانی مسٹر ولیم ڈگلس نے چونکہ پیلا طوس اوّل کے برعکس فیصلہ دے کر عدل کا شاندارکارنامہ دکھایا تھا اس لئے حضرت مسیح موعودؑ نے ’’کتاب البریہ‘‘ اور دیگر متعدد تصانیف میں اُن کی بیدار مغزی ، منصف مزاجی، مردانگی اور خداترسی کی بڑی تعریف فرمائی۔ ایک جگہ لکھا: ’’جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسے یہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی، ویسے ویسے تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا اور اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لئے اس کو چنا۔‘‘
مسٹر ڈبلیو ایم ڈگلس نے 25فروری 1957ء کو لندن میں 93 سال کی عمر میں انتقال کیا۔ اُن کے ذہن میں آخر تک اس مقدمہ کے واقعات پوری طرح محفوظ تھے اور وہ ساری زندگی اپنی زندگی کے اس اہم ترین واقعہ کا تذکرہ کرتے رہے اور عقیدت آمیز لب و لہجہ میں کہتے کہ میں نے مرزا صاحب کو دیکھتے ہی یقین کرلیا تھا کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول سکتا۔
خاکسار 1953ء میں پاکستان فضائیہ کی طرف سے ایک ٹریننگ کورس کرنے کے لئے انگلستان گیا اور اِس دوران کرنل ڈگلس سے بھی ملاقات کی۔ وہ اگرچہ انفلوئنزا کی وجہ سے بیمار تھے اور ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہوا تھا لیکن میرے لمبے سفر کا خیال کرتے ہوئے انہوں نے مجھے تفصیل سے حالات بیان کئے۔
انہوں نے بتایا کہ تمام محکوم ممالک کی طرح انڈیا میں بھی انگریزوں کا اتنا رعب تھا کہ کوئی کام ہماری مرضی کے خلاف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہمیں اپنی انتظامی قوت پر بے حد فخر تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اُس وقت مَیں ضلع گورداسپور کا ڈپٹی کمشنر تھا مگر اِس واقعہ کا گہرا تعلق چند سال قبل کے ایک ایسے واقعہ سے بھی ہے جو بٹالہ کے ریلوے سٹیشن پر میرے ساتھ پیش آیا تھا جب مَیں بٹالہ میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھا۔ ایک روز بٹالہ ریلوے پلیٹ فارم پر چلتے ہوئے مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے ایک شخص چلا آرہا ہے۔ نگاہیں نیچی، بے حد نورانی چہرہ۔ اُس کے چہرہ میں ایک ایسی کشش تھی کہ میرا دل اور دماغ ہل کر رہ گئے۔ لگتا تھا کہ اُسے دنیا سے کوئی رغبت ہی نہیں اور وہ آہستہ آہستہ چلا آ رہا تھا۔ میرے لئے ممکن ہی نہ رہا کہ اس کے اتنے نورانی چہرہ سے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں چنانچہ میں ٹکٹکی باندھے اس کے چہرہ کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ شخص میرے پاس سے گزر گیا تو پھر بھی مَیں اسے دیکھتا رہا اور آہستہ آہستہ گھومتا گیا اور آخرکار میں الٹے پائوں چلنے لگ گیا۔ اس طرح چلنے کی وجہ سے مَیں پلیٹ فارم پر کھڑے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر بٹالہ سے ٹکرا گیا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گرگیا۔ مَیں نے اُس کو Sorry کہا، اُسے زمین سے اٹھایا اور جلدی سے پوچھا کہ وہ کون شخص ہے؟ اُس نے جواب دیا: سر آپ کو علم نہیں؟ یہ قادیان کے مرزاصاحب ہیں۔ جذباتی طور پر مَیں اُس وقت شدید مغلوب تھا کیونکہ میںنے ایسا نورانی چہرہ ساری عمر نہیں دیکھا تھا اور یہ اثر مجھ پر کافی عرصہ قائم رہا۔ پھر آہستہ آہستہ فراموش ہوگیا۔
کچھ عرصہ بعد مَیں گورداسپور کا ڈپٹی کمشنر بنا تو یہ مقدمہ میرے پاس آیا جس میں بطور ڈسٹرکٹ جج مَیںنے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا یہ کیس سیشن کورٹ میں جائے یا نہ جائے۔ فائل کے ریکارڈ اور گواہوں کے بیانات اتنے مکمل تھے کہ مجھے ان میں کوئی جھول نظر نہیں آیا۔ مگر جب میں نے یہ پڑھا کہ ملزم مرزا غلام احمد آف قادیان ہے تو مجھے سخت دھچکہ لگا۔ میرا دل ہرگز ہرگز یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ جو چہرہ میں نے بٹالہ کے سٹیشن پر چند سال پہلے دیکھا تھا وہ ایسا کام کرے بلکہ ایسا سوچ بھی سکے۔ میں بہت پریشان ہوا اور متواتر پریشان رہا۔ کئی بار فائل میں سے کوئی غلطی نکالنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ اسی پریشانی میں مَیں نے انگریز DSP کو مشورہ کے لئے بلوایا اور اُس سے پوچھا کہ کیا عبدالحمید پولیس کے قبضہ میں ہے یا ابھی بھی چرچ کے پاس ہے؟ اس سوال پر DSP چونکا کیونکہ اسے احساس ہوا کہ پولیس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے۔ وہ مجھ سے اجازت لے کر بھاگا اور کچھ دیر کے بعد واپس آیا تو کہا کہ ہم سے بڑی غلطی ہو گئی تھی ہم نے عبدالحمید کو چرچ کے پاس ہی رہنے دیا اب ہم نے اسے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے اور وہ مان گیا ہے کہ یہ کیس بالکل جھوٹا ہے اور میں نے چرچ سے رقم لینے کے لالچ میں یہ کہانی گھڑی تھی۔
چنانچہ کیس چلا اور سب گواہیاں سننے کے بعد مَیں نے مرزا صاحب کو باعزت طور پر بری کر دیا۔ فیصلہ سنانے کے بعد مَیں نے مرزا صاحب سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو استغاثہ کرنے والوں پر ہرجانہ کا کیس کر سکتے ہیں۔ مگر انہوںنے فرمایا: ’’نہیں۔ ہمارا مقدمہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ مجھے کوئی ہرجانہ نہیں چاہئے۔‘‘
خاکسار کے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ چرچ کا برٹش گورنمنٹ پر بالکل کنٹرول نہیں تھا اور اگرچہ ہم پادریوں کی عزت کرتے تھے مگر عدل کے معاملہ میں وہ اثر انداز نہیں ہوسکتے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اُس وقت بھی یقین تھا کہ یہ جماعت دنیا میں بہت ترقی کرے گی لیکن آپ کی ترقی کی رفتار میرے اندازہ سے زیادہ تیز ہے۔ جب میں نے اُنہیں بتایا کہ ہم قادیان سے ہجرت کرکے ربوہ میں آباد ہو گئے ہیں تو کہنے لگے کہ مجھے علم ہے کہ ربوہ کہاں ہے کیونکہ مَیں کچھ عرصہ ڈپٹی کمشنر شاہ پور ایٹ سرگودھا رہا ہوں۔
پھر انہوں نے اپنی بنائی ہوئی تصویریں اور پینٹنگز دکھائیں جن میں سے ایک پینٹنگ کے بارہ میں بتایا کہ یہ کپاس کے پھول کی ہے جو مَیںنے قادیان کے قریب ایک کھیت میں بیٹھ کر بنائی تھی ۔ مَیں نے کہا کہ قادیان کے قریب تو اب کپاس نہیں ہوتی تو کہنے لگے کہ اُس زمانہ میں ہوتی تھی۔
اُنہوں نے اپنی فیملی کے بارہ میں بتایا کہ اُن کا بڑا بیٹا آسام (انڈیا) میں انگریزوں کی ملکیت ایک Tea Estate کا جنرل مینجر ہے۔ دوسرا بیٹا آسٹریلیا میں ہے اور بیٹی امریکہ میں ہے۔
…………………
مذکورہ واقعہ کے 26سال بعد 1979ء میں خاکسار سیاحت کرتے ہوئے زیورخ (سوئٹزر لینڈ) پہنچا تو ایک سیرگاہ بنام پیلاطوس (Pelatus) دیکھنے بھی گیا۔ چونکہ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا اس لئے امریکی فوجی یہاں بھی سیر کرنے آئے ہوئے تھے۔ دوپہر کو ریسٹورنٹ میں ایک بڑی سی میز پر امریکنوں کا ایک گروپ بیٹھا ہوا تھا۔ اُن میں سے میرے سامنے بیٹھا ہوا امریکی غصہ میں مجھے کہنے لگا کہ یہ جگہ کتنی منحوس ہے، تمہیں یہاں نحوست نظر نہیں آتی؟ مَیں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا یہ پیلاطوس کتنا بُرا انسان تھا اِس نے ہمارے خداوند کو صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ دیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اسے کیسی سزا دی کہ جب وہ مرا تو لوگوں نے اسے یہاں دفن کیا مگر زمین نے اسے قبول نہ کیا اور اسے اُگل دیا۔ بار بار ایسا ہوا۔ آخر اُسے جلا دیا اور اس کی راکھ یہاں بکھیر دی گئی۔
مَیں نے کہا کہ جس پیلاطوس نے حضرت عیسیٰ ؑ کے مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، وہ تو رومن تھا اور رومی حکومت کی طرف سے فلسطین میں Posted تھا۔ اُس نے کہا کہ نہیں وہ اِسی جگہ پیدا ہوا تھا جہاں ہم بیٹھے ہیں اور کچھ پڑھ لکھ کر روم گیا اور رومی حکومت کے نظام عدل میں ملازم ہوگیا۔ وہ Swiss تھا اور اُس زمانہ میں یہ علاقہ رومی حکومت کے قبضہ میں تھا۔
چنانچہ آج دو ہزار سال بعد بھی اُس امریکی کو پیلاطوس اوّل پر اتنا غصہ تھا کہ اُسے یہ سیرگاہ منحوس لگ رہی تھی۔ لیکن پیلاطوس ثانی ہر احمدی کے دل میں ہمیشہ محبت سے یاد کیا جاتا رہے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں