کچھ رہے باقی نہ کچھ اس کے سوا باقی رہے – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30 ستمبر 2011ء میں محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک غز ل شائع ہوئی ہے۔ اس غزل میں سے انتخاب پیش ہے:

کچھ رہے باقی نہ کچھ اس کے سوا باقی رہے
حوصلہ افکار کا ، احساس کا باقی رہے
میں قفس میں مر بھی جاؤں اس کی کچھ پرواہ نہیں
یہ نہ ہو مر کے بھی میری کچھ سزا باقی رہے
آخری اک ذائقہ ہے موت کا بس ذائقہ
پھر زباں باقی رہے نہ ذائقہ باقی رہے
اُف یہ کربِ آگہی ، یہ ہارنے کا حوصلہ
بس خدا باقی ، خدا کا آسرا باقی رہے
چھین لے سیلِ حوادث مجھ سے میری کائنات
آنکھ میں کاجل نہ ہو لیکن حیاء باقی رہے
بات کچھ بننے نہ پائی کھل گئے سب میرے راز
ہاتھ میں پکڑے ہوئے بندِ قبا باقی رہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں