کوہسار

ماہنامہ ’’خالد‘‘ جولائی 2003ء میں پہاڑوں کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون مکرم عامر شہزاد عادل صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
دنیا کے مختلف مقامات پر انتہائی بلند چوٹیوں کے حامل پہاڑی سلسلے موجود ہیں جن میں ہندوکش اور ہمالیہ سرفہرست ہیں۔ایک سلسلہ قراقرم ہے جو اپنی برف پوش چوٹیوں اور شاداب وادیوں کی وجہ سے بھرپور کشش رکھتا ہے۔ اس کی چوڑائی چار سو کلومیٹر اور گہرائی اڑہائی سو کلومیٹر ہے۔ قراقرم کے لغوی معنی ’’سیاہ‘‘ کے ہیں۔ اس سلسلہ کے اہم ترین علاقوں میں راکاپوشی، اور سیاچن وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی K2 بھی اسی سلسلہ میں واقع ہے اور قطبین کے بعد سب سے بڑے گلیشیئرز بھی قراقرم میں ہی واقع ہیں۔
زمین کی سطح کا دسواں حصہ گلیشیئرز سے ڈھکا ہوا ہے۔ جب ان کی برف کی موٹائی ساٹھ فٹ تک ہوجاتی ہے تو یہ اپنے ہی وزن کے زیراثر پھسلنے لگتے ہیں اور نتیجۃً ان کی برف پگھل کر وادیوں میں ندی نالوں اور دریاؤں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ہمالیہ سے نکلنے والے تقریباً تمام دریا انہی گلیشیئرز سے بنے ہیں۔ گرین لینڈ اور بحرمنجمد جنوبی میں پائے جانے والے گلیشیئرز ’’براعظمی گلیشیئرز‘‘ (Ice Caps) کہلاتے ہیں۔ان کی موٹائی میلوں میں ہوتی ہے اور چوڑائی ہزار میل سے بھی زیادہ۔
برفانی تودے (Ice Berg) دراصل گلیشیئر سے ٹوٹ کر الگ ہوجانے والے ٹکڑے ہیں جو سمندر میں بہتے رہتے ہیں۔ گرین لینڈ میں ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے اور قطب جنوبی کے پاس بھی یہ بہت تباہی مچاتے ہیں۔ ایک برفانی تودہ تقریباً دو تین سو فٹ سطح سمندر سے اونچا نظر آتا ہے جبکہ اس کا تقریباً نو گنا حصہ پانی کے اندر ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک تودہ اپریل 1912ء میں Titanic جہاز سے ٹکرا گیا تھا اور اس حادثہ میں ڈیڑھ ہزار افراد ڈوب گئے تھے۔
پہاڑوں پر سے گرنے والا سب سے اونچا آبشار Angel’s Falls ہے جو جنوبی امریکہ کے ملک وینزویلا میں واقع ہے۔ یہ 3212؍فٹ کی اونچائی سے نیچے دریائے کارو (Carrou) میں گرتا ہے۔ یہ آبشار ایک امریکی مہم جُو جیمز اینجل نے 1930ء میں دریافت کیا تھا ۔ بعد میں وہ خود اس آبشار کے آس پاس ہی 1935ء میں ایک فضائی حادثہ میں ہلاک ہوگیا تھا۔
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ واقع ہے جس کی بلند ترین چوٹی 29028؍فٹ ہے یعنی یہ پہاڑ ساڑھے پانچ میل اونچا ہے۔ تبت اور نیپال کی سرحد پر واقع اس پہاڑ کو ایک انگریز کوہ پیما سر جارج ایورسٹ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جس نے دنیا کے نقشہ پر اس پہاڑ کی نشاندہی کی تھی۔ بے شمار کوہ پیماؤں نے اس چوٹی کو سر کرنے کے لئے اپنی جانیں تک قربان کردیں تاہم 2؍مئی 1953ء کی صبح تقریباً گیارہ بجے نیوزی لینڈ کے کوہ پیما سر ایڈمنڈ ہیلری نے اپنے گائیڈ شرپاتن سنگ کے ہمراہ اس چوٹی کو سر کرلیا جسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے بعد کئی کوہ پیماؤں نے اسے سر کیا۔
نذیر صابر وہ واحد پاکستانی کوہ پیما ہیں جنہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ کو سر کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلند دنیا کی پانچ دوسری چوٹیوں میں سے چار چوٹیاں بھی سر کرلیں۔ اُن کا تعلق وادی ہنزہ سے ہے۔ 1974ء میں 21 سال کی عمر میں انہوں نے پہلی چوٹی ’’پاسو‘‘ سر کی تھی جو 7784؍میٹر بلند تھی۔ وہ 1976ء میں بالتور گلیشیئر کی Paiyo Peak سر کرنے والی پہلی بین الاقوامی مہماتی ٹیم میں شامل تھے۔ 26؍سال کی عمر میں انہوں نے کے۔ٹو کی چوٹی بھی سر کرلی جو دنیا کی مشکل اور خطرناک ترین چوٹی ہے۔ اس پر انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ 17؍مئی 2000ء کو انہوں نے ’’ایورسٹ‘‘ سر کرکے اس پر پاکستانی پرچم لہرا دیا۔ انہوں نے اپنے ایک کینیڈین کوہ پیما ساتھی کے ہمراہ 42 دن کی سخت جدوجہد اور ناقابل برداشت موسمی حالات کا مقابلہ کرکے اس چوٹی کو سر کیا۔
آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑوں کی دنیا بھر میں تعداد 14 ہے جن میں سے آٹھ نیپال میں پانچ پاکستان میں اور ایک چین میں ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں