ڈیما ستھنیز۔ قدیم یونان کا خطیب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ15؍جون 2007ء میں مکرم احتشام البدر صاحب کے قلم سے قدیم یونانی خطیب ڈیما ستھنیز (Damosthenes) کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
323 قبل مسیح کا سال تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سال یونان کی تین اہم شخصیات ارسطو، سکندراعظم ا ور ڈیماستھنیزکی وفات ہوئی۔
یونان کی ایک شہری ریاست Athens کے زوال کے زمانہ میں ایک امیر تلوار ساز کے ہاں ایک کمزور اور نحیف سے بچے کی پیدائش ہوئی۔ یہ بچہ ڈیماستھنیز اتنا کمزور تھا کہ اس کی ماں نے اسے جمنیزیم سے روک دیا جہاں ہر یونانی بچہ ورزش کے لئے جانے کا پابند تھا۔ چونکہ یونان میں اس وقت جنگ کا دور تھا، اس لئے عموماً ہر نوجوان یا تو بری فوج میں جاتا یا بحری فوج میں۔ لیکن یہ بچہ اپنی جسمانی کمزوری کی بناء پر ان دونوں شعبوں میں جانے سے قاصر تھا۔ اُس دور میں ایتھنز میں فلسفہ اور خطابت کے سکول بھی بہت مشہور تھے۔ چنانچہ ڈیماستھنیز نے خطابت کو اپنے لئے چن لیا۔ ابھی وہ سات سال کا تھا کہ اس کے والد کی وفات ہوگئی۔ اُس کے والد نے وفات سے پہلے اپنی جائیداد تین رشتہ دار دوستوں کی نگرانی میں دیدی۔ لیکن جب وہ 16 سال کا ہوا تو اسے معلوم ہوا کہ تینوں نگرانوں نے اس کا حصہ وراثت ہضم کرلیا ہے۔ اُسے والدہ کے ترکہ کا ساتواں حصہ ہی دیا گیا۔ اس پر اُس نے عدالت سے رجوع کیا لیکن وہاں اسے احساس ہوا کہ اس کے دلائل دقیانوسی اور نہایت طویل تھے، آواز باریک، سانس کمزور اور انداز بیان بے ربط تھا۔ چنانچہ نہایت بے بسی کے ساتھ اس نے عدالت کو الوداع کیا۔
خوش قسمتی سے مشہور اداکارArkantos اُس کا دوست تھا جس نے ڈیماستھنیز کو اس کی کمزوریوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ ’’جیتنے کے لئے تمہیں دلفریب انداز اور منفرد لہجے کو اپنانا ہوگا‘‘۔ اُس دوست نے اُسے کچھ مشہور ڈراموں میں سے کچھ پیرے دیئے اور ان کو پڑھنے کی مشق کروائی۔ ڈیماستھنیز کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ بغیر کافی معلومات اور علم کے، کوئی بھی شخص خطابت میں دسترس اور فن تحریر میں کمال حاصل نہیں کرسکتا۔ چنانچہ اُس نے تھیوسی ڈائڈیز اور افلاطون کے افکار کا مطالعہ کیا اور آئسوکریٹس کے دروس میں باقاعدگی کے ساتھ شامل ہوتا رہا۔ مسلسل مطالعہ نے اس کے ذہن کو ایک مخصوص نہج دی۔ فن خطابت میں مہارت کے لئے اس نے منہ میں کنکر ڈال کر بولنے کی مشق کی۔ آواز کی پختگی کے لئے کھلے منہ کے ساتھ دوڑنے کی مشق کی تا پھیپھڑے کھل سکیں اور اپنی آواز کو اونچا کرنے کے لئے پہاڑی پر تیز چڑھتے ہوئے بولنا سیکھا۔ اس طرح تین ماہ تک مشق کرنے کے بعد اس نے عدالت میں تقریر کی اور آہستہ آہستہ مدلل دلائل، اعلیٰ زبان، بہترین ادائیگی، مزاح اور بے ساختہ بیانات کی بدولت اس نے اپنا حق بھی واپس لیا اور خود کو یونان کے عظیم ترین خطیب کے طور پر بھی منوالیا۔ اُس نے صرف ادائیگی بیان میں ہی دسترس حاصل نہیں کی بلکہ اگر اس کے خطبات کو پڑھا جائے تو وہ آج بھی اسی طرح پُراثر ہیں جیسا کہ وہ آج سے 2300 سال پہلے سامعین کے دلوں پر ایک جادو سا کر دیتے تھے۔
ڈیماستھنیز نے اپنے فن خطابت کو قومی بہبود کے لئے بھی استعمال کیا۔ اُس وقت یونان میں خانہ جنگی کی سی کیفیت دیکھ کر مقدونیہ کے بادشاہ فلپ نے یونان کو اپنا شکار بنانا چاہا۔ فلپ نہایت ذہین اور قابل بادشاہ تھا۔ پہلے تو وہ ڈلفی کے مندر کے محافظ کے طور پر سامنے آیا اور بعدازاں جنگ کے زور پر یونانی ریاستوں کو تابع کرنا شروع کیا۔ ڈیماستھنیز نے اس بادشاہ کے خلاف طوفانی تقاریر کے ذریعہ آواز بلند کی اور ایتھنز کے عوام کو اپنی آزادی کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہونے کا کہا۔ لیکن شاید اس کے سامعین اپنا ولولہ اور آزادی کی تڑپ ہی کھوچکے تھے!!
جب یونانیوں کی آنکھیں کھلیں۔ تب انہوں نے ڈیماستھنیز کو سرآنکھوں پر بٹھایا اور اُسے ایک عظیم تہوار میں سونے کا تاج پہنایا گیا۔
فلپ کے بعد اس کا بیٹا سکندر اعظم تخت نشین ہوا تو ڈیماستھنیز نے سکندر کے خلاف خطبات کا آغاز کیا۔ دراصل وہ اس سوچ کا مخالف تھا جو دوسروں کی آزادی غصب کرکے حکمرانی کرنا چاہتی تھی۔ اب یونانی اس کی پیروی میں اٹھ کھڑے ہوئے اور عظیم جنگ لیمیان ہوئی جس میں بدقسمتی سے یونان کو شکست ہوگئی۔ نتیجتاً یونان ایک بار پھر مقدونی غلام بن کر رہ گیا۔ ڈیماستھنیز اور دیگر حریت پسندوں کوموت کی سزا سنائی گئی۔ اپنی جان بچانے کے لئے ڈیماستھنیز نے پوسائیڈن کے ایک نہایت قدیم مندر میں پناہ لی جس کے اندر خون بہانا ممنوع تھا۔ مقدونی فوج ایک سابق اداکار آرکیاس کی قیادت میں مندر تک پہنچ گئی۔ اگرچہ آرکیاس ایک سخت دل انسان تھا لیکن اس مقدس مندر میں خون بہانے سے جھجک گیا۔ اس نے ڈیماستھنیز سے التجا کی کہ وہ باہر آجائے اور امید دلائی کہ اسے معاف کرانے کی سفارش بھی کرے گا۔ اس پر ڈیماستھنیز نے کہا ’’آرکیاس! تم مجھے کبھی اپنی بہترین اداکاری سے متاثر نہیں کرسکے جو آج اپنے وعدوں سے متاثر کروگے‘‘۔
اس کے بعد ڈیماستھنیز نے آرکیاس سے کہا کہ وہ اپنے دوستوں کے نام خط لکھ کر باہر آجائے گا۔ تب ڈیماستھنیز نے اپنا قلم لیا اور ایک تاریک کونے میں بیٹھ کر لکھنے لگا۔ پھر اس نے اپنے قلم کے بالائی حصہ میں موجود زہر کو پی لیا اور اٹھ کر دروازہ سے باہر آگیا اور گرکر جان دے دی۔ اس کی عمر 62 سال تھی۔
حقیقت یہی ہے کہ ڈیماستھنیز کی قوت ادراک، سیاسی مہارت اور دوربینی صلاحیت کا مقابلہ اس زمانے میں کوئی نہیں کرسکتا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں