ڈپریشن کے خطرات اور اس سے بچاؤ – جدید تحقیق کی روشنی میں

ڈپریشن کے خطرات اور اس سے بچاؤ – جدید تحقیق کی روشنی میں
(محمود احمد ملک)

ڈپریشن ایک ایسا نفسیاتی مرض ھے جس کی بے شمار وجوہات ہیں یعنی جسمانی، ذہنی اور جینیاتی وغیرہ- بہرحال تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ ان وجوہات کا تعلق جسمانی معاملات سے کم اور ذہنی معاملات سے زیادہ ھے مثلا خواہش کے مطابق کامیابی یا شہرت کا نہ ملنا بھی اس کی بڑی وجہ ہے- چنانچہ ماہرین نفسیات نے ڈپریشن اور شہرت حاصل کرنے کی خواہش میں اہم تعلق پائے جانے کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کامیابیوں، دولت کے حصول اور شہرت پانے کی خواہشات انسان کو ڈپریشن میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ برٹش جرنل آف کلینیکل سائیکالوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق اس نوعیت کا ڈپریشن مسلسل جاری رہتا ہے کیونکہ ان خواہشات کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا ۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر ڈاکٹر جوہن سن اور ڈاکٹر بریکلے نے کہا ہے کہ اس نوعیت کے ذہنی انتشار سے بدمزاجی، تلخ کلامی، لالچ، نیند میں کمی اور جسمانی معذوری لاحق ہوسکتی ہے، نیز مستقبل سے بہت زیادہ توقعات یا کسی فرد سے توقعات کے ٹوٹنے پر جو ناکامی سامنے آتی ہے اس پر شدید رنج اور دکھ کا احساس، دراصل شہرت میں کمی ہونے کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق میں 103 افراد کی ذہنی حالت کو زیرنظر رکھا گیا تھا جن میں سے 27 لوگ شدید ڈپریشن میں مبتلا تھے۔ ان افراد میں شہرت کی خواہش سب سے نمایاں تھی اس کے بعد کامیابیوں کی شرح اور پھر دولت کا حصول تھا۔
تاہم ایک تحقیق میں ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ کسی انسان کے خوش رہنے یا نہ رہنے کا انحصار اُس میں موجود ایک جین پر بھی ہوسکتا ہے۔ اس جین کو 5-HTTLPR کا نام دیا گیا ہے جو دماغ میں موجود ایک مخصوص کیمیائی مادے ’’سیروٹونین‘‘ کے اعصابی تعامل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہارمون ’’سیروٹونین‘‘ اعصابی خلیات کے درمیانی کیمیائی پیغامات کو منتقل کرنے کا ذمے دار ہے اور اس کا انسانی موڈ سے قریبی تعلق ہے۔ چنانچہ ڈپریشن دُور کرنے کے لئے دی جانے والی بہت سی ادویات، جسم میں موجود سیروٹونین ہارمون کی مقدار کو توازن میں لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سائنسدانوں نے دریافت شدہ جین کی تین مختلف حالتوں کا بھی پتہ چلایا ہے جن میں سے دو کا تعلق ڈپریشن کی زیادتی اور خودکُشی کی کوشش سے بتایا گیا ہے جبکہ تیسری قسم کا تعلق ایسے اعصابی کیمیائی ردّعمل سے ہے جو ذہنی دباؤ کے دوران انسانی جسم میں پیدا ہوتا ہے۔
بعض ایسے لوگ بھی ڈپریشن کا شکار دیکھے گئے ہیں جن کی تخلیقی صلاحتیں غیرمعمولی تھیں- اس حوالے سے ہنگری کی ایک یونیورسٹی میں کئے جانے والے مشاہدات کے بعد ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اعلیٰ درجے کی ذہانت اور دیوانگی کے درمیان ایک انتہائی باریک لکیر کا فاصلہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے ذہین افراد میں ایک خاص قسم کا جین موجود ہوتا ہے اور یہی جین ڈپریشن اور دماغی امراض کا بھی باعث بنتا ہے۔ کیونکہ ذہانت سے منسلک یہ مخصوص جین جہاں دماغی صلاحیتوں کے اضافے میں اہم کردار ادا کرتا ہے وہاں اس کا تعلق دماغی امراض مثلاً شیزوفرینیا سے بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ اِس دریافت سے یہ وضاحت ہوسکتی ہے کہ نہایت ذہین افراد میں سے بعض ذہنی بیماری کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ دماغی امراض سے منسلک جین کا تعلق کچھ مفید امور سے بھی ظاہر ہوا ہے۔ کیونکہ ایسے جین، جن کا شدید ذہنی امراض سے تعلق ہوتا ہے، وہ کئی صحت مند لوگوں میں بھی موجود ہوتے ہیں اور اُن لوگوں کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کردیتے ہیں۔
ڈپریشن کی علامات بھی اس قدر مختلف ہوتی ہیں کہ صرف جسمانی تکالیف کو سامنے رکھ کر ہی فیصلہ نہیں‌ کیا جاسکتا- چنانچہ ملائیشین پین اینڈ ڈپریشن ڈے پر میڈیا ورکشاپ میں پیش کی جانے والی ایک طبّی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں مختلف نوعیت کی دردیں ڈپریشن کو جنم دیتی ہیں۔ جبکہ کیمیائی مادے سیروٹونین کے جسم کے اندر زیادہ اخراج سے بھی جسمانی دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ تحقیق ملائیشیا کے ایک طبّی ادارے کے ماہرین نے کی ہے جن میں مائیکا ٹریک ایسوسی ایشن ملائیشیا کے صدر ڈاکٹر ین ٹیک بھی شامل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ روز مرہ کی طبّی پریکٹس میں جسم کی دردوں سے ڈپریشن میں چلے جانے کی وجہ کے بارے میں ہزاروں ڈاکٹر ابہام کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھ نہیں پاتے کہ درد کی وجہ سے ڈپریشن ہے، یا ڈپریشن سے دردیں شروع ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ ابتداء میں ڈاکٹر زیادہ تر درد دُور کرنے والی ادویات دیتے ہیں لیکن وقتی افاقے کے بعد وہ ڈپریشن دُور کرنے والی ادویات کی طرف آجاتے ہیں اور بعض اوقات دونوں ادویات اکٹھی بھی شروع کردی جاتی ہیں جس سے صورتحال مزید خراب ہونے لگتی ہے ۔
برازیل کے ماہرین نے ڈپریشن کے مریضوں کے سونے اور جاگنے کے اوقات پر تحقیق کے بعد یہ پتہ چلایا ہے کہ وہ پُرسکون نیند سے محروم تھے۔ اس جائزے میں 200 ایسے لوگوں کو منتخب کیا گیا تھا جو پہلے کبھی کسی ذہنی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے۔ اور اُن کے سونے کی عادات اور ڈپریشن کی علامات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ رات کو دیر تک جاگنے والوں میں ڈپریشن کی سنگین علامات ان لوگوں سے تقریباً تین گنا زیادہ تھیں جو صبح جلدی اٹھنے کے عادی تھے۔ لیکن دونوں گروپوں کی نیند کے دورانیے میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔ لیکن ان کے سونے کے اوقات کا فرق ان کے مزاج میں بہت زیادہ فرق کا باعث دکھائی دیا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ڈپریشن ریسرچ اینڈ کلینک پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایان اے کُک کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ آیا سونے کا معمول ڈپریشن کی علامت کی وجہ بنتا ہے یا ڈپریشن کی وجہ سے لوگوں کی نیند متاثر ہوتی ہے اور وہ رات کو دیر تک جاگتے ہیں۔تاہم ایک حالیہ جائزے سے بھی یہ ظاہر ہوا ہے کہ اگر آپ رات کو جلد سونے کی عادت ڈال لیں تو آپ کے مزاج پر اس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ نیویارک کے ایک اسپتال کے ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلن کا کہنا ہے کہ اگر آپ رات کو جلد سونے کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو سونے کے وقت سے کچھ دیر پہلے ہی ایسی سرگرمیاں ترک کر دیں جو آپ کے دماغ کو فعال کردیتی ہیں۔ مثلاً کمپیوٹر کا استعمال۔ کیونکہ کمپیوٹر پر معلومات پڑھنے کے علاوہ اس کی سکرین سے خارج ہونے والی روشنی بھی آپ کی نیند کی راہ میں حائل ہوسکتی ہے۔ تاہم پٹس برگ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں نیند پر تحقیق شعبے کے ڈائریکٹر اور پروفیسر آف سائیکیٹری، ڈاکٹر ایرک نوف کہتے ہیں کہ ایسے جینز کا پتہ لگایا گیا ہے جن کی وجہ سے کچھ صبح جلد اٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور کچھ رات دیر سے سونے کو۔ ڈاکٹر نوف نے ڈپریشن کے کچھ مریضوں کے سروں کا سکین کر کے یہ معلوم کیا ہے کہ ان کے دماغ نیند کے دوران دوسرے لوگوں کے دماغوں کی نسبت مختلف طریقے سے کام کرتے ہیں۔ اور اُن کے دماغ کے جذبات سے متعلق حصوں میں بہت زیادہ فعالیت موجود تھی جس کی وجہ سے وہ رات کو پُرسکون نیند نہیں لے سکتے تھے۔
ناروے کی یونیورسٹی آف برگن اور کنگز کالج آف لندن کے طبّی ماہرین نے مشترکہ مطالعے کے بعد کہا ہے کہ ڈپریشن کی بیماری بھی سگریٹ نوشی کی عادت کی طرح ہی خطرناک ہے۔ ماہرین نے چار سالہ تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ڈپریشن اور تمباکونوشی، دونوں سے پیدا ہونے والی بیماریاں انسان کی اندرونی صحت کو شدید نقصان پہنچاکر کھوکھلا کرسکتی ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تھوڑی بہت پریشانی ہمارے لئے اچھی ہوتی ہے اور یہ انسان کی ترقیات میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ چنانچہ لندن میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن سے متأثرہ افراد کو یادداشت ختم کردینے والی بیماری الزائمر لاحق ہونے کے خطرات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔ الزائمر ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس کے لاحق ہونے کے نتیجے میں متأثرہ فرد بہت آہستگی کے ساتھ اپنی یادداشت کھو دیتا ہے اور بیماری کی شدّت کی صورت میں مریض کا اعصابی نظام بھی متأثر ہوتا ہے۔ الزائمر کی علامات میں کوئی بات بالکل بھول جانا، بلاوجہ ہیجان میں مبتلا ہونا، انتہائی کنفیوژن کا شکار ہونے کے ساتھ ایک دَم خوش اور کچھ ہی دیر میں دفعۃً ناراض ہوجانا شامل ہیں۔
٭ برٹش سائیکاٹری جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مختلف سبزیاں، پھل اور مچھلی کھانے والے افراد کو ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ افراد جو پہلے سے تیار شدہ اشیاء کھانے کو ترجیح دیتے ہیں ان میں ڈپریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق اوسط عمر کے ساڑھے تین ہزار سرکاری ملازمین پر پانچ سال تک کی گئی اور برطانیہ میں خوراک اور ذہنی دباؤ کے حوالے سے کی جانے والی اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے۔ ماہرین نے تحقیق میں شامل افراد کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلے گروپ کو سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل خوراک مہیا کی گئی جبکہ دسرے گروپ کو مٹھائیاں، تلا ہوا کھانا اور تیار گوشت جیسی خوراک دی گئی۔ ان افراد کا طبی ریکارڈ، عمر، تعلیم، جسمانی سرگرمیاں اور تمباکونوشی کی عادات کے مطابق مشاہدہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایسے افراد میں جن کو سبزیاں وغیرہ دی گئی تھیں، اُن میں دوسرے گروپ کے افراد کے مقابلے میں ڈپریشن کے امکانات پچیس فیصد کم تھے یعنی پہلے سے تیارشدہ اشیاء کھانے والوں میں ڈپریشن کا مرض لاحق ہونے کا خطرہ 75 فیصد زیادہ تھا۔ اسی لئے ایک دوسری رپورٹ میں طبّی ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی اور ذہنی صحت کے لئے جنک فوڈ سے پرہیز ضروری ہے کیونکہ بازاری کھانے موٹاپے کے علاوہ ڈپریشن کا بھی باعث بنتے ہیں۔ یہ تحقیق برطانوی اور فرانسیسی ماہرین نے مشترکہ طور پر 3486 افراد پر کی ہے۔ ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ انسان کی خوراک اور mood کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ اِس جائزے میں لوگوں کی عمر، جنس، قد، وزن، بازاری کھانے کی شرح اور بازاری کھانوں کی پندرہ اقسام کو بھی مدنظر رکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ بازاری کھانوں کے استعمال سے خون کے دباؤ میں پیدا ہونے والی تبدیلی سے دماغی امور کو سرانجام دینے کی صلاحیت تبدیل ہوتی رہتی ہے جس سے ڈپریشن کی بیماری جنم لیتی ہے۔ اِن کھانوں سے موٹاپا بھی پیدا ہوتا ہے جو اپنی ذات میں کئی جسمانی اور ذہنی امراض کا باعث بن سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں