ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جولائی 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب کے قلم سے تین شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ایک خطبہ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کے والد خان میر خان صاحب افغا ن تھے اور حضرت مصلح موعود ؓکے ایک جانثار محافظ تھے۔ لیکن صرف حفاظت کا ہی نہیں بلکہ بہت سے دوسرے کام سامان وغیرہ بھی خود اٹھا اٹھا کر گاڑیوں میں رکھنا اور بچوں کی بھی حفاظت کرنا، ان کی بھی دلداری کرنی۔ غرضیکہ حضرت مصلح موعود ؓکے پہرہ داروں میں سے خان میر ایک بے مثل پہریدارتھے۔
ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کی بیگم مریم سلطانہ صاحبہ بیان کرتی ہیںکہ میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ ضلع کوہاٹ کے علاقہ ٹل میں مقیم تھی جہاں کوئی اَور احمدی گھرانہ نہ تھا۔ 1956ء میں وہاں مخالفت کی آگ بہت بھڑکی اور 29؍جون کو مخالفین میرے خاوند کو دھوکہ دے کر ایک مریض کے علاج کے لئے پانچ چھ میل دُورعلاقہ غیر میں لے گئے۔ یہ دھوکہ ایک مُلّاں نے دیا اور وہاں لوگوں کے سامنے غضبناک ہوکر چِلّایا کہ یہ قادیانی ڈاکٹر ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اسے گولی نہ ماروں اوروہیں گولی مار کر شہید کردیا۔ شہید مرحوم کی اہلیہ کو خبرملی تو بڑی بہادری اور ہمت کرکے، بچوں کو خدا کے سپرد کرکے، اپنے میاں کی نعش لینے کے لئے نکل کھڑی ہوئیں۔ جس قسم کے حالات تھے نعش کاملنا ممکن نظرنہیں آتا تھا لیکن آپ لاش کی تلاش میں سرگرداں پھرتی رہیں ۔ کہتی ہیں کہ میں لاش تلاش کرتی پھرتی تھی اور شہر کے لوگ میرے شوہر کے قتل پر خوشیاں منارہے تھے۔ میں نے صبر کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔ پھرکوئی میرے غم میں شریک نہ تھا ۔ آخر انہوں نے یعنی مریم نے آخر لاش حاصل کر ہی لی اور ٹرک کا انتظام بھی خود ہی کیا۔ بڑ ی بہادرخاتون تھیں ، خود اکیلے ہی یہ سارے کام کئے ۔ ٹرک کاانتظام کر کے اس میں لاش رکھ کر چاروں بچوں کوہمراہ لے کرربوہ روانہ ہوگئیں۔ کہتی ہیں میں آہوں اور سسکیوں میں زیر لب دعائیں کرتی رہی اور اس دوران ان کے شوہرکی دکان بھی لوٹ لی گئی ۔ قاتل وہاں دندناتا پھرتاتھا لیکن کوئی اسے پکڑنے والا نہ تھا لیکن خدا کی پکڑ سخت ہوتی ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے شہیدمرحوم کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ مَیں جماعت کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ احمدیوں کوشہید کرنے والے ظالم لوگوں کی خبر تو لے کر دیکھیں کہ حکومت کی پکڑ سے تو وہ بچ گئے لیکن ان پر خدا کی کیسی پکڑ آئی۔ ایک خاندان کے متعلق جس نے بہت ظالمانہ طریق پر ایک احمدی کو مارا تھا اس کے متعلق معلوم ہواکہ وہ سارا خاندان ایک حادثے میں بس میںجل کر مرگیا اور یہ شخص جو دندناتا پھرتاتھا یہ پاگل ہو گیا اور دیوانگی کی حالت میں گلیوں میں نیم برہنہ پھرتا رہا اورکچھ عرصہ نظرآنے کے بعد کہیں ہمیشہ کے لئے گم ہوگیا۔ اسی طرح وہ مُلّاں جو مریض دکھانے کے بہانے ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کو بلانے آیاتھا وہ بھی اپنے بھائی کے ہاتھوں بیوی بچوںسمیت قتل ہوگیا۔ تو اللہ کی پکڑ ڈھیل تو دکھاتی ہے مگر بہت سخت ہوا کرتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں