ڈاکٹر عمر احمد شہید

ڈاکٹر عمر احمد صاحب 28مئی 2010ء کو لاہور کی احمدیہ مساجد میں ہونے والی دہشتگردی کے نتیجہ میں شہید ہوئے۔ آپ 13؍جولائی1979ء بروز جمعہ مکرم ڈاکٹر عبدالشکور میاں صاحب سابق صدر حلقہ سمن آباد لاہور کے ہاں پیدا ہوئے۔ مکرم چوہدری عبدالستار صاحب مرحوم سابق صدر سمن آباد آپ کے دادا اور حضرت منشی عبدالعزیز صاحبؓ اوجلوی (یکے از313) پڑنانا تھے۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11 جون 2011ء میں مکرمہ ھ۔ ناصر صاحبہ نے اپنے شہید خاوند مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب کا تفصیل سے ذکرخیر کیا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ میری اور عمرؔ کی شادی 20دسمبر2008ء کو ہوئی۔ صرف ڈیڑھ سال کا مختصر عرصہ ہم اکٹھے رہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بیٹی ثمرین سے نوازا جو وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہے۔
ڈاکٹر عمر احمد بہت ہی پیار کرنے والے اور احساس کرنے والے انسان تھے۔ میرا ہر حال میں انہوں نے خیال رکھا۔ اگر مَیں بیمار ہوتی تو رات کو بھی جاگتے رہتے۔ بہت زیادہ خیال رکھتے تھے خود پانی پیتے تومجھے بھی لاکر دیتے کہ شاید میں نے بھی پانی پینا ہو۔ گھرکے کام کاج میں میری مدد کرتے۔ اگر مَیں مصروف ہوتی تو بیٹی کو سنبھالتے۔ کھانے کے معاملہ میں کبھی تکلّف نہیں کیا۔ بہت ہی سادہ غذا پسند تھی۔ اونچی آواز میں نہ کبھی بولتے اور نہ ہی اونچی آواز میں بولنے کو پسند کرتے۔ کم گو اور حلیم طبیعت کے مالک تھے۔ بچپن میں کبھی بھی کسی چیز کے لئے ضِد نہ کی اور نہ ہی ایسی شرارت جس سے دوسروں کو تنگی محسوس ہو۔
چھوٹی عمرسے ہی نمازیں ادا کرنے اور دیگر جماعتی کاموں میں حصہ لینے کا جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔ پانچوں نمازیں ادا کرتے اور باقاعدگی سے قرآن مجید کی تلاوت کرتے۔ کتب سلسلہ کا مطالعہ کرتے۔ خدام الاحمدیہ میں زعیم حلقہ اور دیگر شعبوں میں سالہاسال خدمت کی توفیق پائی۔ جماعتی طور پر بھی وصایا، تعلیم اور اشاعت کے سیکرٹری رہے۔ خدمت خلق کا بڑا شوق تھا۔ اگر کبھی کسی کو خون کی ضرورت ہوتی تو سب سے پیش پیش ہوتے اور مشکل میں دوسروں کے کام آتے تھے۔ حتیٰ کہ 28مئی کو دارالذکر میں جب آواز آئی کہ کوئی ڈاکٹر ہے تو آپ فوری طور پر آگے بڑھے اور دہشتگرد کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ 22سال کی عمر میں آپ نے وصیت کرنے کی توفیق پائی۔
عمرؔ صرف پردہ کے معاملے میں سختی کرتے ورنہ کبھی کسی بات پر سختی نہیں کی۔ مجھ سے نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کا ضرور پوچھتے۔ کہتے کہ ثمرین کو گود میں بٹھا کر تلاوت کیا کرو اس طرح بچے کو بھی شوق پیدا ہوتا ہے۔ خود صبح تلاوت کئے بغیر گھر سے نہیں نکلتے تھے۔ چاہے ایک آیت ہی پڑھ لیں ترجمے کے ساتھ ضرورپڑھتے تھے۔ اکثرحضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا ارشاد سنایا کرتے تھے کہ بے شک ناشتہ چھوڑ دو مگر صبح قرآن مجید کی تلاوت ضرور کیا کرو۔ نماز مغرب و عشاء کے بعد لمبا وقت نوافل میں صَرف کرتے۔ کئی مرتبہ وقف عارضی پر بھی گئے۔
عمرؔ میرے سب سے بہترین دوست تھے۔ ہم دونوں ہر بات ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ تاہم اگر کوئی جماعتی بات راز میں رکھنے والی ہوتی تو وہ کبھی نہیں بتاتے تھے۔ کہتے کہ مَیں خیانت نہیں کرسکتا۔
عمرؔ میرے والدین کی بہت عزت کرتے اور میری تینوں بہنوں سے بہت پیار کرتے۔ چونکہ ہمارا کوئی بھائی نہیں اس لئے حقیقی معنوں میں عمر نے میری بہنوں کو بھائی کا پیار دیا۔ گاہے بگاہے ان کے لئے تحائف بھی لے کر آتے۔ بلاجھجک میرے گھر والے عمر کو کام کہہ دیتے اور وہ بہت خوشی سے کرتے تھے۔ مَیںشادی کے بعد بھی کچھ عرصہ تک کالج جاتی رہی۔ مجھے ہر روز کالج چھوڑتے اور چھٹی کے وقت لیتے اور میری پڑھائی میں بہت مدد کرتے تھے۔ سہیلیوں کے ساتھ فون پر بات کرنے اور وقت گزارنے پر کبھی بُرا نہیں منایا۔
آپ نے میری ہر تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا اور میری ہر خواہش میں شامل رہے۔ بہت سادہ طبیعت انسان تھے۔ فیشن کی طرف توجہ نہیں تھی لیکن ہمیشہ سادہ اور صاف ستھرا لباس پہنتے تھے۔بہت نفاست پسند تھے۔ہر چیز مکمل ترتیب سے سلیقے سے رکھتے۔
ہر وقت خدمت دین کے لئے تیار رہتے۔ حضور کو باقاعدہ ہر ہفتے خط لکھتے اور حضور کا ہر حکم فوراً مانتے۔ صد سالہ خلافت جوبلی کی دُعائیں باقاعدگی سے پڑھتے۔ بہت عاجزانہ رویہ تھا۔ کہتے تھے کہ دُعا کرو اللہ تعالیٰ برکت ڈالے اور ہم زیادہ سے زیادہ چندے دے سکیں۔
زندگی میں خداتعالیٰ نے دو مرتبہ انہیں خاص فضل فرماتے ہوئے حادثات میں محفوظ رکھا۔ پہلی بار تین چار سال کی عمر میں گاڑی کے نیچے آگئے اور دوسری مرتبہ 25فٹ اونچی چھت سے گرے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خراش تک نہ آئی۔ بچپن سے ہی جنگ کے واقعات اور شہادت پانے والوں کی کہانیاں سُننے کا شوق تھا۔ تیسری جماعت میں تھے کہ میجرعزیز بھٹی شہید کے بارہ میں پروگرام دیکھا اور اتنے متأثر ہوئے کہ اپنی کاپیوں پر اپنا نام’’ میجرعُمر احمد شہید‘‘ لکھا اور اس کی محبت میںمیجر عزیز بھٹی شہید کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں اُن کے کارناموں کو سراہتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کی والدہ آپ کو یاد کرتی ہیں اور نیچے اپنا نام میجر عمر احمد شہید لکھا۔ اسی جنون کی وجہ سے ایک مرتبہ ریگولرکورس میں فوج میں کمیشن کے لئے کوشش کی اور دوسری مرتبہ ڈاکٹر بننے کے بعد کمیشن کے لئے کوشش کی۔ لیکن دونوں مرتبہ ISSB تک کامیابی حاصل کی مگر کمیشن کے لئے منتخب نہ ہو سکے۔
شادی کے بعد سے ہی اکثر شہادت کے موضوع پر مجھ سے بات کرتے کہ انہیں بچپن ہی سے شہادت کا شوق تھا۔ کہتے تھے کہ جنت میں جانے کا سب سے آسان راستہ یہی ہے پر میری ایسی قسمت کہاں۔ اکثر کہتے کہ مَیں تو جماعت کی خاطر سینے پر گولی کھالوں گا۔
عمرؔ کی شہادت سے دو ماہ قبل مَیں نے خواب میں دیکھا کہ عمر احمد کی دوسری شادی ہو رہی ہے اور مَیں زاروقطار رورہی ہوں۔
عمرؔ نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں دی۔ سخت گرمی میں دفتر سے دوپہر کو آتے تو ہلکی سی گھنٹی بجاتے تاکہ کوئی ڈسٹرب نہ ہو۔ اور کبھی تو کافی دیرتک خاموشی سے باہر کھڑے رہتے۔
شہادت کے وقت عمرؔ ریسرچ کے ایک سرکاری ادارہ میں بطور ویٹرنری آفیسر ملازمت کررہے تھے۔ دفتر کے تمام لوگ آپ کے کردار کی بے حد تعریف کرتے۔ تاہم عمرؔ محض چند عناصر کے متعصبانہ رویے کا اکثر ذکر کرتے تھے اور اس پر افسوس کا اظہار کرتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں