عظیم سائنسدان – چارلس رابرٹ ڈارون

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍نومبر 2006ء میں عظیم سائنسدان ڈارون اور اُس کے کام کے بارہ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
چارلس رابرٹ ڈارون 12 فروری 1809ء کو اُسی دن انگلستان میں پیدا ہوا جس دن امریکہ میں ابراہیم لنکن پیدا ہوا۔ ڈارون کا گھرانہ خوشحال اور مشہور تھا۔ پہلے اسے طب کی تعلیم کے لئے ایڈنبرا بھیجا گیا لیکن جب معلوم ہوا کہ وہ طب کی تعلیم حاصل کرنے کی طرف رجحان نہیں رکھتا تو اسے پادری بنانے کے لئے کیمبرج بھیج دیا گیا لیکن اس کی اصل دلچسپی مناظر قدرت سے لطف اٹھانے اور حشرات الارض جمع کرنے میں تھی۔ چنانچہ 1931ء میں ڈارون کو ’’بیگل‘‘ نامی ایک جہاز پر جنوبی امریکہ اور دوسرے ملکوں کے سفر کا موقع ملا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ تمام ساحلوں اور دوسرے مقامات سے نباتات و حیوانات کے نمونے جمع کرے۔ یہ سفر 27 دسمبر 1831ء کو شروع ہوا اور کوئی پانچ سال جاری رہا۔ اس سفر کے دوران اُسے تاہیتی، نیوزی لینڈ، تسمانیہ، آسٹریلیا، سینٹ ہیلینا، جزائر ایسنشن (Ascension Island) جزائر کیپ وردے اور ایزورز جانے کا موقع ملا۔ ان علاقوں میں اس نے بیشمار زندہ اور مردہ جانوروں کی باقیات دیکھیں۔ اس نے دیکھا کہ گالایاگوس جزیروں میں ہر جزیرے کی فنچ نما چڑیا کی اپنی ایک خاص قسم ہے اس نے فنچوں کی تقریباً 14 قسمیں دیکھیں جن میں سے ہر ایک دوسرے سے قدرے مختلف تھیں۔ کسی کی چونچ لمبی، کسی کی چھوٹی، کسی کی پتلی اور کسی کی مڑی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ ہر جزیرے پر چڑیوں کی ایک خاص نوع کیوں آباد ہے۔ کیا ابتدا میں صرف ایک ہی نوع تھی جو اپنی خاص ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف انواع میں بٹ گئی؟۔یعنی ہر نوع کی چونچ، اس کی غذائی ضرورت مثلاً دانے اور کیڑے مکوڑوں کے حصول کے لئے ایک خاص شکل کی بن گئی۔ اور کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نوع دوسری نوع میں تبدیل ہوجائے۔
پھر اس نے جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا میں پائے جانے والے مختلف جانوروں کا تقابل کیا۔ جب وہ وطن واپس لوٹا تو انواع کی ان تبدیلیوں پر چند سال تک غور کرتا رہا۔ اِس مسئلے کا حل اُسے مالتھس کے مشہور نظریہ آبادی میں ملا۔ مالتھس نے لکھا تھا کہ نسل انسانی میں بعض مثبت مزاحمتوں کی بنا پر تخفیف ہوجاتی ہے۔ مثلاً بیماریاں، حوادث، جنگ، قحط وغیرہ۔ یہ پڑھ کر ڈارون کو خیال آیا کہ جانور اور پودے بھی ایسے ہی عوامل کا ہدف بنتے ہوں گے اور اُن میں سے وہ معدوم ہوجاتے ہوں گے جو دوسروں کے مقابلہ میں ماحول کے مطابق نہیں ہوں گے۔
ڈارون نے 1844ء میں اپنے نظریے پر ایک کتاب لکھنی شروع کی اور 1858ء تک اس کی تحریر میں مصروف رہا۔ اسی دوران ایک شخص الفریڈ رسل ویلس نے اپنا مسودہ ملاحظہ اور تنقید کے لئے ڈارون کے پاس بھیج دیا تو ڈارون نے دیکھا کہ یہ تو بالکل اسی کے خیالات تھے۔ ویلس کو بھی اپنے نظریہ کی کنجی مالتھس کے نظریہ آبادی سے ملی تھی۔ ڈارون نے ویلس کا مسودہ بھی Linnaean Society کے رسالہ میں شائع کروا دیا اور خود اپنی کتاب کو مفصل لکھنے کی بجائے اس کا خلاصہ تیار کرنے لگا۔ 24؍ نومبر 1859ء کو اُس کی کتاب “Origin of Species” کا پہلا ایڈیشن جو صرف 1250 کاپیوں پر مشتمل تھا، شائع ہوا تو تمام کاپیاں اُسی دن فروخت ہوگئیں۔ ڈارون کی وفات تک صرف انگلستان میں اس کتاب کی 24 ہزار کاپیاں فروخت ہوچکی تھیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ساتھ ہی مخالفت کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس بحث میں ٹی ایچ ہکسلے ڈارون کے حامیوں کا اور پادری دلیر عورس مخالفوں کا سر گروہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اگر ڈارون کا نظریہ درست ہے تو پیدائش کائنات کی جو کیفیت بائبل میں پیش کی گئی ہے وہ درست نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ کلیسا نے ڈارون کے نظریے کو مذہب کے لئے خطرناک بتایا۔ اگرچہ ڈارون نے نظریے کا اطلاق انسان پر کرنے میں بے حد احتیاط برتی تھی۔ تاہم اس کے خلاف الزام عائد کردیا گیا کہ مصنف نے انسانوں کو بندروں کی اولاد ظاہر کیا ہے۔
1871ء میں اس کی دوسری کتاب The Descent of Man شائع ہوئی۔ اس کتاب نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ مذہب اور سائنس کے درمیان ایک ختم نہ ہونے والی بحث چھڑ گئی۔ پادریوں نے اس پر الزام لگایا کہ وہ بائبل کی تعلیمات کا مخالف ہے۔ کئی مناظرے منعقد ہوئے لیکن اُس نے اپنے تجربات کا سلسلہ جاری رکھا اور نظریہ ارتقاء کے علاوہ نباتات پر بھی بہت سی تحقیقات کیں اور کئی مفید کتابیں لکھیں۔ 19؍اپریل 1882ء کو اس کا انتقال ہوگیا اور انگلستان کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا۔
جماعت احمدیہ ڈارون کے اس نقطہ نظر سے اتفاق نہیں کرتی کہ انسان بندر سے ترقی کرکے انسان بنا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے لیکن یہ نہیں ہوا کہ وہ یکدم پیدا ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’انسان، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کرکے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے‘‘۔ (سیر روحانی ص24)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں