چند نفسیاتی مسائل اور ان کی حقیقت – جدید تحقیق کی روشنی میں

چند نفسیاتی مسائل اور ان کی حقیقت – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

٭ طبی ماہرین نے اپنی ایک رپورٹ میں زیادہ کھانے کی بیماری کے علاج کے لئے جسمانی کی بجائے ذہنی طریقۂ علاج زیادہ مؤثر قرار دیا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق زیادہ کھانے کا مرض جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہے۔ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی پرنسپل پروفیسر کرسٹو میری برن نے اپنی اس تحقیق میں بتایا ہے کہ اس مرض سے صرف مریض ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ مریض کا خاندان بھی متاثر ہوتا ہے اس لئے اب ایسے مریضوں کو ہسپتال میں داخل کر کے علاج کرنے کی بجائے ان مریضوں کا ذہنی مراکز میں علاج ممکن ہو سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس مرض کی وجوہات جسمانی ہونے کے ساتھ ساتھ ’’سائیکو سوشل‘‘ بھی ہیں۔ نیز یہ بیماری زیادہ تر نوجوان خواتین کو لاحق ہوتی ہے۔ چنانچہ 18 سے30 سال کی درمیانی عمر کی 20 میں سے ایک خاتون اس مرض کی شکار ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 80 میں ایک ہے۔ اسی طرح یہ مرض نوجوانوں میں 10 فیصد،بڑوں میں 5 فیصد اور بچوں میں 3 فیصد ہوتا ہے۔ اس بیماری کی واضح علامت یہی ہے کہ اس مرض میں مریض کھانے پینے کی اشیاء دیکھ کر خود پر قابو نہیں پاسکتا۔
٭ جریدے سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رنگ انسانی دماغ کی کارکردگی پر اثرانداز ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کی کارکردگی میں لاشعوری طور اضافہ کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ماہرین نے اپنے جائزے میں اشتہاری کمپنیوں میں ایک عرصے سے جاری اس بحث کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی کہ سرخ یا نیلے میں سے کونسا رنگ انسان کے دماغ کو زیادہ متحرک کرتا ہے۔ مارکیٹنگ پروفیسر جولیٹ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں رنگ دماغ کو متحرک کرتے ہیں لیکن اس کا انحصار کام کی نوعیت پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا کام آپ سے تفصیلات پر توجہ مرکوز کرنے کا تقاضہ کرتا ہے تو سرخ رنگ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ لیکن اگر آپ کا کام تخلیقی نوعیت کا ہے تو نیلا رنگ آپ کیلئے زیادہ مددگار ہوگا۔ مذکورہ پروفیسر اور ان کی ٹیم نے گزشتہ دو سالوں کے دوران 600 افراد کا کمپیوٹر کے ذریعے جائزہ لیا اور یہ نتائج مرتب کئے۔
٭ ایک اَور نفسیاتی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسان میں پیدا ہونے والے منفی جذبات اکثر اوقات اُس کی بقا کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ روزنامہ ٹیلی گراف میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہاورڈ یونیورسٹی کے میڈیکل سکول میں کئے جانے والے ایک حالیہ مطالعاتی جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ جو لوگ اپنے افسر کے سامنے اپنے جذبات یا غصے کو دباتے ہیں، ان میں یہ تسلیم کرنے کی شرح تین گناہ زیادہ پائی گئی ہے کہ ان کی ذاتی زندگیاں بہت مایوس کن ہیں اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ جو لوگ اپنے غصے کو افسر کے سامنے تعمیری انداز میں بیان کرتے ہیں، وہ پیشہ ورانہ طور پر دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ کامیاب تھے اور اُن ذاتی زندگی اور اہل خانہ سے تعلقات بھی بہت عمدہ تھے۔
ہاورڈ میڈیکل سکول کے ماہر نفسیات پروفیسر جارج ویلنٹ کی نگرانی میں یہ مطالعاتی جائزہ 1965 میں شروع کیا گیا تھا جس میں گذشتہ 44 سال کے دوران 824 مردوں اور عورتوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا گیا۔ پروفیسر ویلنٹ کا کہنا ہے کہ منفی جذبات مثلاً خوف اور غصہ فطری ہیں اور انتہائی اہم ہیں اور اکثر اوقات بقا کیلئے ضروری ہوتے ہیں کیونکہ یہ ہماری توجہ کو محدود اور مرکوز کردیتے ہیں تاکہ ہم سارے جنگل پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی بجائے اپنا دھیان چند درختوں تک محدود کر سکیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگرچہ بے قابو غصہ تَباہ کُن ہے۔ لیکن غصے پر قابو پانے کے لئے دواؤں اور کونسلنگ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ غصہ آنا فطرت کا حصہ ہے اور جو لوگ اپنے غصے کا اظہار مُثبت انداز میں کرنا سیکھ لیتے ہیں اور یہ بھی سیکھ لیتے ہیں کہ غصے کے منفی اثرات سے کس طرح بچنا ممکن ہے، ان کی جذباتی اور ذہنی صحت نمایاں حد تک بہتر ہوجاتی ہے۔ اور وہ زندگی میں بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔… ایک جریدے ’’سوشل بی ہیویئر اینڈ پرسنالٹی‘‘ میں شائع ہونے والے ایک حالیہ جائزے سے بھی یہ معلوم ہوا ہے کہ 55 فیصد افراد نے غصے کے اظہار سے مُثبت نتائج حاصل کئے جبکہ ایک تہائی کو اپنی غلطیاں معلوم کرنے میں مدد ملی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں