پہلا غلافِ کعبہ

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ اکتوبر 2002ء میں مکرم پروفیسر محمد اسلم صابر صاحب کے قلم سے غلافِ کعبہ کا تاریخی حوالہ سے جائزہ لیا گیا ہے۔
اہل مکہ نے جب اخروی زندگی کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃالدخان میں اُن کے خیال کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا وہ اچھے ہیں یا تُبَّعْ کی قوم۔ اور وہ لوگ جو تُبَّعْ سے پہلے تھے، ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا، وہ لوگ یقینا مجرم تھے‘‘۔
ان آیات کے مطابق تُبَّعْ کی قوم ایک زبردست قوم تھی۔ اس قوم کا تعارف یہ ہے کہ عرب کے جزیرہ میں جنوب مغرب میں بحیرہ احمر کے ساحل کے ساتھ یمن واقع ہے جہاں 115ق م تا 565ء (یعنی 640 سال) تک قوم سبا کی شاخ حِمْیَر خاندان کی حکومت قائم تھی۔ حمیر سبا کا بیٹا تھا۔ آہستہ آہستہ انہوں نے باقی قومِ سبا پر بھی غلبہ حاصل کرلیا۔ پھر حضرموت کا علاقہ بھی ان کے زیرنگین آگیا۔ 275ء سے حمیر خاندان کے بادشاہوں نے لقب تُبَّعْ اختیار کرلیا۔ ایک تُبَّعْ کا نام اسعد ابوکرب تھا جس نے 385ء سے 420ء یعنی 35 سال حکومت کی۔ یہ اپنی قوم کا سب سے طاقتور بادشاہ تھا۔ اس نے آذربائیجان پر حملہ کرکے ترکوں کو شکست دی، اس کے دو بیٹوں نے روم و فارس کی طرف پیشقدمی کی، شاہ فارس کیقباد کو شکست دی، شاہ سمرقند مقابلہ میں مارا گیا۔ اس کے دو جرنیل چین گئے اور بہت سے قیدی اور مال غنیمت لے کر لَوٹے۔ ہندوستان کے راجوں نے خوفزدہ ہوکر صلح کرلی۔ قسطنطنیہ کے بادشاہ نے جزیہ دینا قبول کیا۔ آخر پر روما پر لشکرکشی کی لیکن طاعون کی وبا سے اس کی فوج کا بہت نقصان ہوا۔ باقی کسر اہل روم نے نکال دی اور بادشاہ بمشکل جان بچاکر واپس لَوٹا۔
تُبَّعْ اسعد اور اُس کی قوم حمیر بت پرست تھے۔ ایک دفعہ وہ ایک مہم سے یمن کی طرف واپس آرہا تھا۔ راستہ میں مکہ پڑتا تھا۔ بنوھذیل کے کچھ لوگ اُس سے ملے اور بادشاہ کو بتایا کہ مکہ میں ہیرے جواہرات کا خزانہ ہے جو بادشاہ چاہے تو لُوٹ سکتا ہے۔ بادشاہ دو یہودی علماء اپنے ساتھ رکھتا تھا اور اُن کی نیکی اور اصابت رائے سے متأثر تھا۔ بادشاہ کے مشورہ مانگنے پر علماء نے کہا کہ یہ لوگ بادشاہ اور اس کے لشکر کی ہلاکت کے آرزومند ہیں۔ ہمارے علم کے مطابق زمین میں یہ اللہ کا گھر ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ پھر مجھے کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہی کرنا جو وہاں کے رہنے والے کرتے ہیں، اس گھر کا طواف کرنا، اس کی تکریم کرنا، اپنا سر منڈھوانا اور عاجزی اختیار کرنا۔ بادشاہ نے تعجب سے پوچھا کہ میرے مقصد کے خلاف تم نے کیوں رائے دی؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! وہ جگہ ہمارے باپ ابراہیم کا گھر ہے لیکن وہاں کے مکینوں نے اس میں بت نصب کررکھے ہیں اور اس کے گرد خون ریزی کرتے ہیں۔ وہ مشرک اور نجس لوگ ہیں۔ بادشاہ پر علماء کی باتوں کا بہت اثر ہوا اور اُس نے بنوھذیل کے اُن لوگوں کو بلاکر اُن کے ہاتھ پاؤں کٹوادیئے۔
پھر بادشاہ مکہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کیا، قربانی کی، سر منڈھوایا اور دس یا چھ روز قیام کیا۔ اس دوران وہ مسلسل جانور ذبح کرکے لوگوں کو کھلاتا رہا اور پینے کے لئے شہد مہیا کرتا رہا۔ اس دوران اُس نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیت اللہ کو لباس پہنا رہا ہے۔ چنانچہ خواب کے مطابق اُس نے خصف (موٹے کپڑے) کا غلاف پیش کیا۔ پھر اُس نے دوبارہ یہی خواب دیکھا کہ پہلے سے عمدہ کپڑے کا غلاف چڑھا رہا ہے۔ چنانچہ اُس نے مغافر کا غلاف چڑھایا۔ تیسری بار پھر یہی خواب دیکھا تو ملاء اور وصائل (قیمتی یمنی دھاری دار کپڑے) کا غلاف چڑھایا اور اپنے ماتحت بنوجرھم کے والیوں کو تاکید کی وہ اس گھر کو پاک و صاف رکھیں نہ اس کے قریب خون ریزی کریں اور نہ مُردے دفن کریں اور نہ کوئی حائضہ اس کے قریب آئے۔ پھر اُس نے بیت اللہ کا دروازہ بھی نصب کیا اور چابی لگائی۔
کعبہ سے فارغ ہوکر تُبَّعْ اپنے لشکر اور دونوں علماء سمیت واپس یمن چلاگیا اور وہاں اپنی قوم کو اس نئے دینِ توحید (یہودیت) کو قبول کرنے کی دعوت دی۔ ایک روایت کے مطابق اُس کا رویہ دیکھ کر قوم نے اُسے یمن میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا کہ تُو بے دین ہوچکا ہے۔ تُبَّعْ نے اُنہیں سمجھایا کہ یہ دین تمہارے دین سے بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ ہم آگ سے کروائیں گے۔ یہ اُس کی قوم کا اعتقاد تھا کہ آگ ظالم کو بھسم کردیتی ہے۔
چنانچہ تُبَّعْ کی قوم اپنے معبود لے کر نکلی اور دونوں یہودی علماء بھی مذہبی صحیفے گردنوں میں حمائل کرکے نکلے۔ پھر وہاں آگ بھڑکائی گئی تو بت پرست وہاں سے خوفزدہ ہوکر بھاگنے لگے۔ آگ نے اُن کے بتوں کو بھسم کردیا۔ دونوں احبار صحیفوں سمیت آگ سے سلامت باہر نکل آئے۔ اُن کے چہرے پسینہ سے شرابور تھے۔ یہ دیکھ کر حمیر قوم نے احبار کے ہاتھ پر یہودیت قبول کرلی اور وہ ایک مؤحد قوم بن گئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں