’’وقت کم ہے بہت ہیں کام چلو‘‘

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ3؍ نومبر 2011ء میں مکرم پروفیسر راجا نصراللہ خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ

اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتَہٗ

کہ تُو وہ بزرگ مسیح ہے جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے سورۃ العصر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ’’زمانہ جس طرح پر تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں تیزی سے گزر رہی ہیں ۔ … اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ شریف میں جہاں انسانی عمر کے اس طرح تیزی سے گزرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس سورۃ میں اس کا علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہیں اگر ہمارا حکم مان لو۔ اس حکم کی تعمیل سے تم زندہ جاوید ہو جاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ آپ مومن بنو اور اعمال صالحہ کرو۔ دوسرے کو مومن بناؤ اور حق کی وصیت کرو۔ حق کے پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو اور صبر و استقلال سے کام لو۔ اس علاج پر اگرمومن عمل کرے اور اس کو اپنا دستور العمل بنالے تو یقینا یقینا وہ ہمیشہ کی زندگی پالے گا۔‘‘۔
عام طور پر کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنا وقت ضائع کررہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص خود کو ضائع کررہا ہوتا ہے۔ اور اپنی زندگی کو تعمیری اور کامیاب بنانے کے مواقع ضائع کررہا ہوتا ہے۔ وقت کی مثال برف کی طرح ہے جس نے آخرکار پگھل ہی جانا ہے۔ چنانچہ زندگی کے آخری ایام میں ٹامس ایڈیسن سے پوچھا گیا کہ دنیا میں سب سے قیمتی شے کیا ہوتی ہے؟ وہ بولا ’’وقت۔ کیونکہ آپ ایک ملین ڈالر دے کر بھی گزرا ہوا منٹ نہیں خریدسکتے‘‘۔
بائبل میں وقت کی قدر نہ کرنے والوں کی ایک تمثیل بیان ہوئی ہے۔ دس کنواریاں اپنی مشعلیں لے کر ایک دولہا کے استقبال کے لئے نکلیں ان میں سے پانچ بیوقوف تھیں اور پانچ عقلمند۔ بیوقوف کنواریوں نے اپنی مشعلیں لیں لیکن (وقت پر) ان میں تیل نہ ڈالا۔ عقلمند کنواریوں نے اپنی مشعلیں ہر طرح سے تیار رکھیں ۔ دولہا نے دیر لگائی۔ سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں ۔ آدھی رات کو شور ہوا دیکھو دولہا آگیا۔ اس کے استقبال کو نکلو ’’سب کنواریاں اپنی مشعلیں درست کرنے لگیں … بیوقوف کنواریاں تیل خریدنے دوڑیں ۔ اُس وقت دولہا آگیا۔ جو تیار تھیں وہ اس کے ساتھ شادی کے جلوس میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا (وقت ضائع کرنے والی کنواریاں محروم رہ گئیں)۔
بعض لوگ آرام پسندی اور تن آسانی کی وجہ سے کہہ دیتے ہیں ’’ابھی بہت وقت پڑا ہے۔ یہ کام بعد میں کرلیں گے‘‘۔ لیکن عقلمند اور دُوراندیش انسان موقع کو غنیمت جانتا ہے اور ’’پہلے کام اور پھر آرام‘‘ کے اصول کو اپنا کر بہت آگے نکل جاتا ہے۔ شیخ سعدیؒ کے ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے کہ ایک چراگاہ ہزار درجہ میدانِ خشک سے بہتر ہے لیکن افسوس کہ گھوڑے کی لگام خود اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔
بعض لوگوں کو وقت کی کمی کی شکایت رہتی ہے۔ اصل میں زیادہ کچھ کرسکنے کے لئے وقت سے فائدہ اٹھانے اور وقت کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے کا سلیقہ جاننا چاہئے۔ نیک نیّتی اور بلند ہمّتی سے تھوڑا وقت مختلف کاموں کو عمدگی سے بجالانے کے لئے کافی ہوسکتا ہے۔
قائداعظم محمد علی جناح کا راہنما اصول تھا ’’کام،کام اور کام‘‘۔ آپ اپنے ہر کام کو معیّن وقت پر کرنے کی انتہائی پابندی کرتے تھے۔
وقت کو بابرکت اور پُرلذت بنانے کا ایک قیمتی نسخہ یہ ہے: ’’دست باکار دل بایار‘‘۔ محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق تحریر کرتے ہیں کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ انگلستان میں جب گرمیوں کے موسم میں دن بہت لمبے اور راتیں بہت چھوٹی یعنی محض چند گھنٹوں کی ہوتی ہیں تب بھی حضرت چودھری محمد ظفراللہ خانصاحبؓ نے نماز تہجد اور نماز فجر کی بروقت ادائیگی کا التزام رکھا۔ ذکر الٰہی اور تسبیح و تحمید کے لئے یوں تو آپ کا ہر لمحہ وقف تھا لیکن بطور خاص روزانہ دو میل کی سیر کے دوران درود شریف اور تسبیحات کا ورد فرماتے اس لئے سیر کے دوران کسی کی معیت پسند نہیں فرماتے تھے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1920ء میں نونہالان جماعت کی راہنمائی اور تربیت کے لئے طویل اور حد درجہ اثر انگیز نظم لکھی تھی۔ بلاشبہ نوجوانی عمر کا بہترین حصہ ہے تاہم یہ عرصہ بھی محدود ہوتا ہے اور اس کا احساس بعد میں ضرور ہوجاتا ہے۔ حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ: اگر ہر رات قدر کی رات ہوتی تو شب قدر کی یقینا کوئی قدر نہ رہتی۔ اگر تمام پتھر لعل بدخشاں (اعلیٰ قسم کے لعل) بن جاتے تو لعل کی قیمت اور معمولی پتھر کی قیمت برابر ہوتی۔
پس زندگی کو سنوارنے کا بہترین وقت عہد جوانی ہے۔ اس دَور میں کی جانے والی محنت اور اولوالعزمی کا یہ سلسلہ بڑھاپے بلکہ آخری دم تک جاری و ساری رہتا ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت مولانا نورالدین کا تحصیل علم کے لئے سفر ہے۔ آپؓ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ میرے باپ پر رحم فرمائے۔ انہوں نے مجھ کو اس وقت جبکہ میں تحصیل علم کے لئے پردیس کو جانے لگا فرمایا اتنی دور جا کر پڑھو کہ ہم میں سے کسی کے مرنے جینے سے ذرا بھی تعلق نہ رہے‘‘۔
حضرت مصلح موعودؓ اپنے لیکچر ’منہاج الطالبین‘ میں فرماتے ہیں : ’’جو دوست جلسہ پر آتے ہیں وہ تو سمجھتے ہوں گے کہ میں نے دو دن لیکچر دیا تو یہ کونسا بڑا کام ہے۔ مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس لیکچر کے لئے مجھے کس قدر مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ جو مسئلہ میں بیان کرتا ہوں اس کے متعلق مختلف مذاہب کے لوگوں کے خیالات معلوم کرنے کے لئے مجھے بہت کچھ ورق گردانی کرنی پڑتی ہے۔ یہی لیکچر جو میں آج دینا چاہتا ہوں اس کی تیاری کے لئے میں نے کم ازکم بارہ سو صفحے پڑھے ہوں گے۔ ان میں سے میں نے بہت ہی کم کوئی بات بطور سند کے لی ہے اور یہ صفحات میں نے محض خیالات کا موازنہ کرنے کے لئے پڑھے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ میرے دماغ میں جو باتیں آتی ہیں محض خدا کے فضل سے آتی ہیں ۔ مگر خدا کے فضل کے جاذب بھی ہونے چاہئیں اور اس کے لئے فکر کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے، مراقبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 20 سال کی عمر میں کیمبرج یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے آئے۔آپ اُن دنوں روزانہ چودہ تا سولہ گھنٹے لگاتار کام کیا کرتے تھے۔ آپ کا مطالعہ بہت وسیع و عمیق تھا اور نہ صرف علوم ریاضی و طبیعات کا مطالعہ کرتے تھے بلکہ تاریخی کتب بھی ان کے زیرمطالعہ رہتی تھیں ۔ خصوصاً تاریخ اسلام، اسلامی تہذیب و ثقافت تاریخ ہند اور تاریخ اقوام عالم۔ یہاں انہوں نے دنیا کی تمام مذہب کی الہامی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا … انہوں نے اپنے تین سالہ Tri Po’s (کیمبرج میں آنرز ڈگری کا امتحان ٹرائی پاس) دو ہی سالوں میں مکمل کرلیا اور بغیر کسی مشکل کے Wrangler (کیمبرج سے فرسٹ ڈویژن میں کامیاب آنرز گریجوایٹ) بن گئے۔آپ برصغیر ہند و پاک بلکہ اسلامی دنیا کے پہلے سائنسدان تھے جنہیں کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار بننے کی پیشکش کی گئی۔ پھر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب 1961ء میں (جبکہ آپ کی عمر فقط 35 سال تھی) صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ مقرر کئے گئے۔
حضرت چوہدری ظفراللہ خانصاحبؓ کو فارغ رہنا کس قدر ناپسند تھا اور ہر وقت مصروف رہنے کا ایسا جنون تھا کہ ایک بار آپؓ نے فرمایا: میں جب امریکہ اور یورپ میں ہوتا ہوں تو تعطیلات میں دیہاتوں کی طرف چلا جاتا ہوں اور تبلیغ کرتا ہوں ، دیہاتوں میں بیشمار دوست ہیں اور ٹھہرنے کے ٹھکانے ہیں ۔ مجھے اَور کوئی شوق نہیں ہے۔ سینما اور سینما کی قسم کی چیزوں سے واسطہ نہیں رکھتا۔ ڈنروں اور لنچوں میں بھی اس لئے شریک ہو جاتا ہوں کہ فرائض منصبی مجبور کرتے ہیں ورنہ حقیقتاً دلچسپی دوہی کاموں سے ہے۔ یا فرائض منصبی کی ادائیگی سے یا تبلیغ سے۔
حضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد ہے: متقی وہی ہیں کہ خداتعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الٰہی کے خلاف ہیں ۔ نفس اور خواہشات نفسانی کو اور دنیا و مافیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ نعمتوں کا وقت ڈھل جانے سے پہلے پہلے فائدہ اٹھانے کی تلقین فرمائی ہے ان میں سے ایک صحت کی نعمت کا زمانہ ہے۔ مولانا حالیؔ نے حدیث کے حوالہ سے یہ شعر کہا:

غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
جوانی ، بڑھاپے کی زحمت سے پہلے

عمر اور علالت کی وجہ سے انسانی قویٰ پر زبردست منفی اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ اپنی جوانی کے دَور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں جوانی کے عالم میں جبکہ جہلم کا دریا خوب چڑھا ہوا ہوتا تھا تیر کر پار چلا جاتا تھا‘‘۔ نیز فرماتے ہیں : ’’زمانۂ طالب علمی میں کئی کئی وقت کھانا نہیں کھاتا تھا اور کوئی ضعف و نقاہت قطعاً محسوس نہیں ہوتا تھا‘‘۔
جوانی میں اپنی دانتوں کی مضبوطی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں کسی زمانہ میں ایک بڑے امیر (مہاراجہ کشمیر) کے ساتھ اس کے باغ میں گیا۔ باغ میں سے اس امیر نے اپنے ہاتھ سے بادام توڑ کر مجھے دیئے۔ میں نے بادام دانت سے توڑ توڑ کر کھانے شروع کئے۔ اس امیر نے میری طرف بڑی حیرت سے دیکھا۔ یا آج یہ حالت ہے کہ چھوہارہ اور انگریزی مٹھائی نہیں کھاسکتا‘‘۔
قرآن کریم نے یہ اٹل قانونِ قدرت بیان فرما دیا ہے کہ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے۔ اس لئے ہر وقت موت کو یاد رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ’’یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو۔‘‘
چنانچہ قرآن کریم نے اہل ایمان کو یہ دعا سکھلائی ہے: وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَار ۔ اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے یعنی نیکوکاروں کے زمرہ میں شامل کرکے موت دے۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنے مضامین میں عموماً اور اپنی عمر کے آخری سالوں میں خاص طور پر انجام بخیر ہونے کی دعا پر بہت زور دیتے تھے۔ 1958ء میں آپ نے ’’نیا سال اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘ کے زیرعنوان ایک قیمتی مضمون لکھا اور اس کے آخر میں تحریر فرمایا کہ یہ مضمون میں نے جنوری کے آغاز میں شروع کیا تھا مگر اعصابی تکلیف اور احساس بے چینی کی وجہ سے اسے جلد ختم نہ کرسکا بلکہ آہستہ آہستہ لکھ کر اور اوپر تلے کئی دنوں کا ناغہ کرکے قریباً ایک ماہ میں آج ختم کیا ہے اور پھر بھی میری خواہش کے مطابق مکمل نہیں ہوا۔ حالانکہ صحت کے زمانہ میں مَیں ایسا مضمون قریباً ایک گھنٹہ میں لکھ لیا کرتا تھا۔ لہٰذا دوستوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے آخر عمر تک یعنی ’زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند‘ خدمت دین کی توفیق دیتا رہے اور میری کمزوریوں کو معاف فرمائے اور انجام بخیر ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں