وادیٔ کیلاش – پاکستان

ہفت روزہ ’’سیرروحانی ‘‘ اگست 2000ء میں پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع وادیٔ کیلاش (چترال) کے بارہ میں معلوماتی مضمون مکرم منصور نورالدین صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
اس وادی کو چاروں طرف سے ہندوکش کے عظیم پہاڑی سلسلے نے گھیر رکھا ہے جسے مختلف درّے سوات، گلگت اور دیگر علاقوں سے ملاتے ہیں۔ یہاں تین سے چار ہزار کیلاشی آباد ہیں جو دنیا کی قدیم ترین اقوام میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بارہ میں ایک سو سے زائد تحقیقاتی کتب لکھی جاچکی ہیں۔ انہیں کافر اور اِس وادی کو کافرستان بھی کہا جاتا ہے۔ قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ کیلاشی پہلے افغانستان کے صوبہ نورستان میں مکین تھے۔ 1895ء میں امیر عبدالرحمن والیٔ افغانستان نے انہیں مجبور کیا کہ اسلام قبول کرلیں یا پھر ملک چھوڑ دیں۔ چنانچہ وہ نقل مکانی کرکے یہاں آکر آباد ہوگئے۔
300 ق م میں جب سکندراعظم نے اپنے باپ کی وفات کے بعد مقدونیا کی بادشاہت سنبھالی تو اُس کی عمر صرف بیس سال تھی۔ وہ عظیم فلسفی ارسطو کا شاگرد تھا۔ بادشاہ بننے کے بعد اُس نے ستر ہزار سپاہ کے ساتھ فتوحات کا آغاز کیا اور فارس کے حکمرانوں کو شکست دے کر مشرق کی طرف اپنے سفرکو جاری رکھا۔ جنگی سفر کے دوران وہ نئے سپاہی بھرتی کرتا اور پرانے سپاہی مختلف جگہوں پر چھوڑتا جاتا۔ تاریخ نویس کہتے ہیں کہ ان ہی سپاہ کی نسلیں آج ہندوکش کے ان سلسلوں میں آباد ہیں۔ اس سلسلہ میں کئے جانے والے DNA ٹیسٹ بتاتے ہیں کہ یہ لوگ جرمن اور اطالوی اقوام کے قریب ہیں۔
کیلاشیوں کی بعض مذہبی رسومات، عادات اور رہن سہن بھی ثابت کرتے ہیں کہ کیلاشی یونان سے تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والے ایک یونانی ٹیچر نے دونوں قوموں میں پائی جانے والی بہت سی مشترک باتوں کا ذکر کیا ہے مثلاً دونوں کے بڑے دیوتا کا نام قریباً ایک ہے۔ اسی طرح دوسرے دیوتا کے لئے استعمال کیا جانے والا نشان ایک ہی ہے۔ پھر سکندراعظم کی طرح کیلاشی بھی بکری کے دو سینگوں کو علامتی طور پر اپنے گھروں کے باہر لٹکاتے ہیں۔ اور سکندر کے باپ کی طرح سورج کا امتیازی نشان گھروں کے دروازوں پر کندہ کرتے ہیں۔ کیلاشی موسیقی بھی یونان کے شمال مغربی علاقے کی موسیقی سے بہت مماثلت رکھتی ہے اور کیلاشیوں کا دائرے میں رقص کرنا بھی یونانیوں کا رقص کا انداز ہے۔ سکندراعظم کے سپاہ کی پینٹنگز سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ ویسی ہی ٹوپی پہنتے تھے جیسی کہ کیلاشی پہنتے ہیں۔
کیلاشی دو زبانیں Kalahwar اور Khower بولتے ہیں جن کا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ ان کا مذہب کچھ خاص حدود و قیود کا پابند نہیں لیکن دیوی اور دیوتا کی پرستش کا تصور نمایاں ہے۔ان کے تہواروں میں سب سے بڑا تہوار Chaomas ہے۔ عقیدہ ہے کہ Balomain دیوتا کسی وقت کیلاشیوں کے ساتھ تھا اور اُس نے بڑے بڑے معرکے بھی سرانجام دیئے۔ اس تہوار کے دوران اس دیوتا کی روح وادیٔ کیلاش میں آتی ہے اور تمام کیلاشیوں کو اُن کے اصل وطن Tsiam (ایک فرضی شہر) لے جاتی ہے۔
کیلاشیوں کی تمام مذہبی رسومات عبادتگاہ میں ادا کی جاتی ہیں جسے Jastak Han کہا جاتا ہے۔ حائضہ عورت اور مرغی کو اس عبادتگاہ میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ مرغی ناپاک تصور ہوتی ہے اور گھر میں بھی داخل نہیں کی جاتی۔ اگرچہ اب سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے مرغی سے نفرت کم ہوگئی ہے۔ کیلاشی قبرستان میں انسانی لاشوں کو لکڑی کے تابوتوں میں پہاڑ کے اوپر رکھ دیا جاتا ہے۔ تابوت بعد ازاں کھل جاتے ہیں اور انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ چونکہ سیاح ان ڈھانچوں کو اٹھاکر لے جاتے تھے اس لئے اب کیلاشی بھی اپنے مُردوں کو دفنانے لگے ہیں۔ اسی طرح کیلاشیوں کی بغیر اجازت تصویر کھینچنے کی صورت میں کیلاشی بہت زیادہ ردّعمل دکھاتے ہیں اور بعض اوقات پتھر بھی پھینکتے ہیں۔ تاہم چند روپے دیدیئے جائیں تو وہ آرام سے تصویر اتروالیں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں