’’نمی کا عکس‘‘

(فرخ سلطان محمود)
(مطبوعہ رسالہ انصارالدین مئی جون 2014ء)

’’نمی کا عکس‘‘

آج ہمارے پیش نظر ایک ایسی شاعرہ کی کتاب ہے جس کے بارہ میں یہ حکایت صادق آتی ہے کہ جوہر کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔ چنانچہ معروف شاعرہ محترمہ امۃالباری ناصر صاحبہ بھی اُن چند خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جن کی سخنوری اور فکری بالیدگی نے دربارِ خلافت سے ایسی داد سمیٹی جو محض چند خوش قسمت شعراء کے حصے میں ہی آسکی ہے۔ بلاشبہ اپنے زمانہ کے عظیم سخن شناس (یعنی حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) ایسے جوہر شناس تھے جو سونے کو کندن بنانے کے عمل سے بخوبی آشنا تھے اور کتاب ’’نمی کا عکس‘‘ کا مطالعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ

اِک خاک کے ذرّے پہ عنایات کا عالم

کچھ اس طرح سے ہوا کہ جس نے اس ذرّۂ خاک کو نمو کے مراحل سے گزار کر ایک گوہر بنانے میں اپنی دعاؤں اور راہنمائی کو یکجا کردیا۔ یقینا یہ سعادت اپنے زورِ بازو سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔
’’نمی کا عکس‘‘ 416 صفحات پر مشتمل ایک ایسی کتاب ہے جواپنے ظاہری حسن (دیدہ زیب سرورق، نفیس کتابت، عمدہ طباعت اورڈیزائننگ) کے ساتھ ساتھ باطنی حسن کا بھی مرقّع ہے۔ اس میں گہرے معانی اور عرفان کے حامل مضامین بھی کثرت سے ملتے ہیں اور سادہ انداز میں کہی جانے والی پُراثر نظموں کی بھی خاصی تعداد موجود ہے۔ مزاحیہ نظموں میں بیان شدہ دُوررَس نکات بھی پڑھنے والے کے لبوں پر تبسم بکھیر دیتے ہیں۔ بے تکلّفی اور سادگی کے باوجود جگہ جگہ ایسے استعارے اور تشبیہات ملتی ہیں جو نہایت خوبصورتی سے اُن لطیف جذبات کو قاری میں منتقل کردیتی ہیں جسے کئی پردوں میں چھپاکر شاعر نے پیش کیا ہو۔ اس مجموعۂ کلام میں بلاشبہ بے شمار ایسی نظمیں ہیں جو نظروں کے راستے حساس دلوں میں اُتر جائیں اور اپنے ماحول میں رہتے ہوئے بھی قاری کو اُس سے بے نیاز کردیں۔ امر واقعہ یہی ہے کہ موصوف شاعرہ کے کلام پر اظہار خیال گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ پس بہتر یہی ہے کہ اس خوبصورت کلام سے کچھ انتخاب قارئین کی نذر کرکے اس لطف و جمال میں اُنہیں بھی شریک کرلیا جائے جس نے ہمیں بھی اپنے سحر میں گرفتار کررکھا ہے۔
سب سے پہلے وہ نظم جو اس کتاب کی وجہ تسمیہ بنی:

ہوا ہے صبر کا پیمانہ لبریز
الٰہی اذن ہو اب واپسی کا
جلو میں لاتا ہے سیلابِ رحمت
ذرا سا عکس آنکھوں میں نمی کا
جو چاہی کرب نے صورت بنالی
مرے بس کا نہیں فن شاعری کا
…………………

جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اپنے ایک خطاب میں ’’مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ‘‘ کہہ کر اپنے خدام کو مخاطب فرمایا تو اس کے جواب میں شاعرہ کا گداز دل بے ساختہ پکارا:

حاضر ہیں دل و جان سے اے قافلہ سالار!
خواہش ہے کہ جاں دین پہ صدقے کریں سو بار
اور ظلم کے بُت اپنی دعاؤں سے گرادیں
ہم داعی الی اللہ نہیں بے کس و لاچار
…………………

اسیرانِ راہ مولیٰ کے نام ایک نظم میں لکھا:

جہانِ عشق کی توقیر تم نے بڑھا دی
نثار ایسی اسیری پہ لاکھ آزادی
…………………

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی مدح میں لکھا:

وہ جس دل میں بھی دیکھیں پیار سے سب خارِ غم چُن لیں
جو گل ہو اپنے دامن میں وہ نذرِ دوستاں کردیں
وہ برکت جن کے کپڑوں سے اکابر بادشاہ پائیں
وہ جس بستی میں رہتے ہوں اسے دارالاماں کردیں
سلام ان نیم وا آنکھوں پہ رحمت بار نظروں پر
کبھی دل کو کریں گھائل کبھی تحلیل جاں کردیں
…………………
بیٹیاں جان سے پیاری ہیں پہ رخصت کرکے
بوجھ اُتر جاتا ہے ماں باپ کے سر سے دیکھو
…………………
وہاں شاید کسی کا دل دُکھا تھا
زمیں تپتی رہی بادل نہ ٹھہرا
گرا تو کیسی پستی میں گرا ہے
حجاب اُترا تو پھر آنچل نہ ٹھہرا
…………………
فقط اُسی سے توقع ہے مہربانی کی
دُکھن کلیجے کی سجدے میں سب بتائی اُسے
نشیبِ عجز میں گرنا ہے رفعتوں کا حصول
کہ سرکشی کبھی بندے کی خوش نہ آئی اُسے
جو اُس کی یاد میں مچلے ہیں گوہر نایاب
پسند آتی ہے اشکوں کی پارسائی اُسے
…………………
غلط ہے آسماں سوکھا پڑا ہے
زمیں کی کوکھ بنجر ہوگئی ہے
نہیں ہے ان تِلوں میں تیل باقی
مجھے پہچان چھُوکر ہوگئی ہے
…………………
میری راہیں سخت کٹھن ہیں صبر و جنوں کی ہمت لے کر
فیصلہ سوچ سمجھ کے کرنا میرے ساتھ آنے سے پہلے
حُسنِ عمل کا اُبٹن لے کر روح و جسم کو مَل مَل دھوئیں
کچھ سنگار تو کرنا ہوگا وصل کی رات آنے سے پہلے
…………………
آتا ہے نظر تاروں سے مہتاب علیحدہ
ہر پہلو سے ہے وہ دُرِّ نایاب علیحدہ
حرفوں کے بدن ٹوٹے ہیں اس شب کی دُکھن سے
جو یاد میں گزری شبِ مہتاب علیحدہ
اب چارہ گری کوششِ ناکام رہے گی
اس مرتبہ ہیں درد کے اسباب علیحدہ
…………………
وہ جو اِک شخص محبت کا ہنر رکھتا ہے
بڑا پارکھ مرے دل پہ نظر رکھتا ہے
…………………
کوئی پونجی نہیں جو پیش کروں
تیری رحمت پہ ہے نظر میری
مَیں کبھی بھی نہیں رہی تنہا
تیری رحمت ہے ہم سفر میری
…………………
محبت ہے کسی کی یاد میں گم ہو کے رہ جانا
محبت ہے کسی کو دل کی دنیا میں بسا لینا
محبت ہی نے آدم کو خدا کا قرب بخشا ہے
اسی سے وحشی انساں میں خدا کا خُلق جھلکا ہے
…………………
ردّ کرکے ضیاء گر گئے ظلمت کے بھنور میں
پھر دھنستے گئے نِت نئی آفت کے بھنور میں
عبرت کے لئے دیکھئے ان قوموں کا انجام
غارت ہوئیں جو کبر کے نخوت کے بھنور میں
ہے عدلِ الٰہی کا تقاضا یہ ازل سے
جاگے نہیں جو سو گئے غفلت کے بھنور میں
…………………

مجموعہ کلام ’نمی کا عکس‘ کی بے شمار نظموں میں سے انتخاب کرنا خاصا دشوار ہے تاہم اُس نظم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی یاد میں کہی گئی اور جس کی ہر سطر سے نمی کا عکس آنکھ سے ٹپکتا دکھائی دیتا ہے۔ اس طویل نظم کے دو بند ملاحظہ فرمائیں:

اِک فقط مَیں ہی جدائی پہ نہیں ہوں دلگیر
اِک دنیا ہے ترے حسن کی احساں کی اسیر
لوگ یوں تڑپے ہیں، روئے ہیں، نہیںجس کی نظیر
سب کو جو اُن سے تعلق تھا وہ سب یاد آئے
مَیں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے
ہر گھڑی جنگ کڑی اُس نے لڑی ہے مولا
زندگی دعوتِ دیں میں ہی کٹی ہے مولا
تا دمِ واپسیں خدمت ہی رہی ہے مولا
پُرسکوں سوئے ہوئے آپ بہت یاد آئے
مَیں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے
…………………

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں