نئی دنیا کی تلاش

قریباً 1450ء میں اٹلی کی بندرگاہ ’جنوا‘ کے رہنے والے ایک جولاہے کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام کولون رکھا گیا۔ کولون گھریلو حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم سکول میں جاری نہ رکھ سکا لیکن اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ گھر پر ہی (خصوصاً جہاز رانی کے متعلق کتب) پڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بندرگاہ پر رہنے کی وجہ سے اس کی ملاقات دنیا کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے مسافروں سے ہوتی جن سے وہ اُن کے علاقوں کے رسوم و رواج کے بارے میں معلومات حاصل کرتا۔ چودہ برس کی عمر میں ایک جہاز میں ملازم ہوگیا۔ 19 برس کی عمر میں اس نے پرتگال کو اپنا وطن بنالیا اور وہیں شادی کرلی۔ 1492ء تک اُس نے کئی چھوٹے چھوٹے سمندری سفر کئے۔
ہندوستان کی دولت کی کہانیاں سُن کر کولون کے دل میں بھی ہندوستان جانے کا خیال آیا لیکن اتنے بڑے سفر کے لئے جس رقم کی ضرورت تھی وہ اسے پرتگال کے بادشاہ سے بھی مہیا نہ ہوسکی۔ اگرچہ بادشاہ نے اس سے وعدہ کیا تھا لیکن چند ماہ بعد کولون نے جب یہ خبر سنی کہ بادشاہ نے خود ایک سمندری مہم ہندوستان کا راستہ تلاش کرنے کے لئے بھیجی تھی جو ناکام واپس آئی ہے تو اُس کا دل ٹوٹ گیااور اُس نے سپین کے بادشاہ کے پاس جاکر اپنی تجویز پیش کی۔ بادشاہ نے ایک کمیٹی بنادی جس نے اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دیا۔ تب کولون نے اپنے بھائی کو برطانیہ اور فرانس کے بادشاہوں کے پاس بھی بھیجا لیکن کوئی بھی مدد کے لئے آمادہ نہ ہوا۔
ایک روز کولون مایوسی کی حالت میں ایک راہب سے ملا ۔ یہ راہب ملکہ سپین کے خاص لوگوں میں تھا چنانچہ اسی راہب کے ذریعے کولون کو بادشاہ کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی اور بادشاہ اسے مالی مدد دینے پر تیار ہوگیا۔ چنانچہ کولون کی قیادت میں 90 آدمیوں کا قافلہ 3؍اگست 1492ء کو تین جہازوں کے ذریعے ہندوستان کا راستہ تلاش کرنے کے لئے روانہ ہوا۔ … آخر ایک طویل اور دشوار گزار سفر کے بعد اسے خشکی دکھائی دی۔ وہ سپین کا جھنڈا تھامے ساحل پر اترا لیکن یہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ یہ ہندوستان نہیں ہے بلکہ امریکہ کا ایک جزیرہ ہے۔ اس جگہ کا نام ’’سان دیاگو‘‘ رکھا گیا۔ کولون پانچ ہفتے وہاں قیام کرنے کے بعد واپس سپین آگیا۔ بادشاہ نے اس نئی دریافت پر اعزاز کے طور پر وہاں کا پہلا گورنر بھی کولون کو مقرر کیا لیکن وہ ایک اچھا حکمران ثابت نہ ہوا چنانچہ جلد ہی واپس بلا لیا گیا۔ یہی شخص آج بھی کرسٹوفر کولمبس کے نام سے تاریخ میں مشہور ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں