مین آف دی میچ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍اپریل 2008ء میں مکرم شیخ نثار احمد صاحب نے کرکٹ کی دنیا کے کئی عظیم کھلاڑیوں سے اپنی ملاقاتوں کا حال بیان کیا ہے۔
مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میرے ساتھ سکول کی کرکٹ ٹیم میں تین ایسے دوست بھی تھے جو بعد میں پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے۔
اوول (Oval) کے ہیرو فضل محمود صاحب سے بھی میری بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ مردانہ حسن کے شاہکار تھے۔ ایک مرتبہ ہم نے انہیں سڑک پر ہی جہاں ہم کرکٹ کھیلتے تھے، درخواست کی کہ وہ باؤلنگ کرائیں۔ چنانچہ انہوں نے کچھ دیر ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ ایک پروگرام میں انہوں نے میرے اِس سوال پر کہ اُن کے زمانہ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی فیلڈنگ بہت کمزور ہوتی تھی اور بہت کیچ چھوٹتے تھے تو وہ کہنے لگے کہ ایک میچ میں مَیں نے باؤلنگ کرتے وقت ایک کھلاڑی سے کہا کہ تم Slip میں کھڑے ہو جاؤ تو اُس نے مجھے آہستہ سے کہا کہ فائدہ کوئی نہیں میں نے Slip میں کبھی کوئی کیچ نہیں پکڑا۔ میں نے انہیں کہا مجھے معلوم ہے لیکن آخر کسی کو تو اس جگہ کھڑا ہونا ہی ہے۔
ماجد خان بھی اپنے وقت کے عظیم کھلاڑی رہے ان کی وجہ شہرت ان کے والد ڈاکٹر جہانگیر خان بھی تھے جو آل انڈیا کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی رہے۔ ماجد خان پاکستان کرکٹ ٹیم میں ایک منفرد انداز کے کھلاڑی تھے اور ان کی خاص مہارت ان کے Quick Reflex تھے جس کی وجہ سے بہت کامیاب بیٹسمین بنے۔اُن سے مجھے ملنے کا اشتیاق دو وجہ سے تھا ایک تو وہ ورلڈ کلاس کھلاڑی تھے ہی لیکن دوسری وجہ یہ تھی لاہور سے نکلنے والے رسالہ ’’دھنک‘‘ میں ماجد خان کا ایک انٹرویو چھپا اور علاوہ دوسری کرکٹ کی باتوں کے انہوں نے احمدیوں کے متعلق بہت ہی اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ چند دن بعد مکرم امیر صاحب نے میری ڈیوٹی لگائی کہ مَیں حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کو جو کراچی سے لاہور آرہے تھے، ربوہ لے جاؤں۔ جب مَیں حضورؒ کے ساتھ کار میں بیٹھا تو ریڈیو پر کمنٹری ہورہی تھی۔ آپ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا سکور ہے؟ میں نے بتایا کہ بارش کی وجہ سے کھیل رُکا ہوا ہے لیکن ماجد خان آؤٹ ہوچکے ہیں۔ اس پر آپؒ نے فرمایا: ماجد خان بہت اچھا کھلاڑی ہے لیکن اس میں ایک کمزوری بھی ہے کہ وہ فرنٹ فٹ پر جب کور ڈرائیو کھیلتا ہے تو اکثر سلپ میں کیچ آؤٹ ہو جاتا ہے۔ میں نے حیرانی سے حضورؒ کی طرف دیکھا اور سوچنا شروع کیا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا عظیم شخص بلاشبہ علوم و فنون کا ایک سمندر ہے لیکن کرکٹ کے کھیل کے ایک کھلاڑی پر اتنی باریک نظر، یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ پھر حضورؒ نے کرکٹ پر بہت ماہرانہ تبصرہ کیا۔ تب میں نے حضورؒ سے ماجد خان صاحب کے انٹرویو کا ذکر کیا تو حضورؒ نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
مجھے دنیا کے کئی شہروں میں بہت سے کرکٹ میچ دیکھنے کا موقع ملا ہے لیکن سب سے زیادہ پُرلطف میچ وہ تھا جو مَیں نے MTA پر کروڑوں احمدیوں کے ساتھ دیکھا۔ کسی پارک میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بیٹنگ فرمارہے تھے۔ حضور نے خوب شاٹس لگائیں اور پھر امیر صاحب جرمنی کی باؤلنگ کے انداز پر بے ساختہ ہنس پڑے۔ چند لمحوں کا یہ میچ اس قدر دلفریب تھا کہ سب بہت ہی محظوظ ہوئے۔ پھر میں نے سوچا کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی لگائی ہوئی Shots تو دنیا کے تمام کناروں کی طرف جارہی ہیں اور یہ عظیم کھلاڑی فرنٹ فٹ پر کور ڈرائیوز لگاتا چلاجارہا ہے اور انشاء اللہ کبھی آؤٹ نہیں ہوگا۔ اس لئے بلاشبہ
He is our man of the match.

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں