مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب آف ساہیوال

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مئی 2010ء میں محترم ڈاکٹر صاحب سابق امیر ضلع ساہیوال کے بارہ میں مکرم میاں نصیر احمد صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
محترم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ایک ہمدرد انسان تھے۔ ضرورت مندوں اور غرباء سے بہت ہمدردی رکھنے والے اور نہایت خاموشی سے دوسروں کی مدد کرنے والے تھے۔ ہر طرح سے دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھتے تھے۔ ہمارا سارا خاندان بھی اُن کا احسان مند تھا کیونکہ کبھی ہم سے علاج کا معاوضہ نہ لیا۔ دوائی بھی اپنے پاس سے دیتے۔ بلکہ کوئی بھی جو اپنی غرض لے کر آپ کے پاس جاتا آپ اسے کبھی خالی ہاتھ نہ جانے دیتے۔
ایک دفعہ خاکسار کے بیٹے نے (جو چھٹی کلاس میں پڑھتا تھا) ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ ہمارے گاؤں میں کافی لوگ غریب ہیں اور عید قریب آ رہی ہے آپ ان کی مدد کریں۔ آپ نے کہا کل ان کے نام لے کر آنا۔ اگلے ر وز اُس نے نام لکھ کر ڈاکٹر صاحب کو دئیے جن کی تعداد تقریباً تیس چالیس تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اسے دس ہزار روپے دئیے کہ ان میں جاکر تقسیم کر دو۔ آپ نے یہ نہیں سوچا کہ بچہ ہے پیسے گم کر دے گا بلکہ غریبوں کی ہمدردی میں یہ موقع بھی ہاتھ سے نہ گنوایا۔ جب اس نے گاؤں جا کر پیسے تقسیم کردئیے تو کئی لوگ شکریہ ادا کرنے ڈاکٹر صاحب کے کلینک آئے۔ اور ڈاکٹر صاحب نے پھر ان کو کرایہ بھی دیا کہ بیچارے اتنا خرچ کرکے آئے ہیں۔
آپ کے ہاتھ میں بہت شفا تھی۔ آپ کی تجویز کر دہ دوا سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے فوراً آرام آ جاتا۔ میں اکثر اپنے غیر از جماعت دوستوں کو آپ کے پاس لے جاتا۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے بہت متأثر ہوتے اور بعد میں ہمیشہ آپ کی بہت تعریف کرتے۔ آپ اس طرح ملتے کہ وہ آپ کے گرویدہ ہو جاتے۔ آپ جب بھی کسی کو مشورہ دیتے تو نہایت حکیمانہ ہوتا اور ہر شخص ان کو اپنا ہمدرد اور محسن پاتا۔ آپ بہت متوکل علی اللہ تھے۔ اگر کبھی فارغ وقت ملتا تو آپ مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ میں مشغول ہو جاتے۔
آپ کے والد حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے اور آپ کی والدہ نے بھی بچپن میں ہی احمدیت قبول کی تھی۔ دونوں انتہائی بزرگ ، دعاگو اور پارسا تھے۔ آپ نے اپنے بچوں کی بھی نہایت اعلیٰ رنگ میں تربیت کی تھی۔ سب نہایت مخلص اور جماعت کے فدائی ہیں۔
محترم ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کمال کا حافظہ عطا کیا تھا۔ بہادر بھی بہت تھے۔ آپ کمیشن لے کر فوج میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے رہے تھے اور قاہرہ میں بھی متعین رہے تھے۔ پارٹیشن کے وقت مخدوش حالات میں آپ اپنے تمام عزیز و اقارب اور احباب کا قافلہ لے کر قادیان سے لاہور آئے تھے ۔ اسی طرح 1974ء اور 1984ء میں آپ نے جماعت ساہیوال کی نہایت حکمت کے ساتھ راہنمائی کی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں