مکرم چوہدری برکت اللہ برکات صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19جنوری2007ء میں مکرم محمد افضل متین صاحب نے اپنے والد محترم چودھری برکت اللہ برکات صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم چوہدری برکت اللہ برکات صاحب کپورتھلہ ہندو ستان سے 1947ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے تو یہاں سابقہ جائیداد کے عوض ایک چار منزلہ مکان بہاولپور میں مل گیا۔ آپ بریلوی مسلک سے منسلک تھے۔ آپ کی پہلی شادی پاکستان آنے کے چند سال بعد 20سال کی عمر میں ہوئی۔ پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہوئیں۔ آپ گریجوایٹ تھے، ہومیوپیتھی کی سند بھی لی ہوئی تھی۔ بعد میں قانون بھی پڑھا۔ پھر ریڈیو ٹی-وی مکینک کا کام سیکھا اور باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ پھر کاروبار شروع کیا جو بعد میں شاہی بازاربہاولپور میں بہت وسعت اختیار کرگیا جس میں آپ کے ساتھ پندرہ بیس شاگرد بھی کام کرتے تھے۔
آپ دنیاوی طور پر بہت عمدہ زندگی بسر کر رہے تھے جب 1963ء میں مکرم حکیم عقیل صاحب معلم وقف جدید کی دعوت الی اللہ سے آپ نے احمدیت قبول کرلی۔ جس کے بعد آپ پر آزمائشوں و ابتلائوں کے پہاڑٹوٹ پڑے۔ پہلے سارے خاندان نے آپ سے تعلق توڑ لیا۔ پھر بیوی نے بھی طلاق مانگ لی ۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والدین بھی کچھ وقفہ سے وفات پا گئے۔ اسی اثناء میں آپ کی شادی حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ کی پوتی سے ہوگئی۔ اس دوسری شادی کے وقت میری والدہ کی عمر قریباً اٹھارہ سال تھی اور والد صاحب کی عمر 40سال تھی۔ جب مخالفین نے دیکھا کہ آپ پھر آباد ہو گئے ہیں تو اُنہوں نے آپ کے کاروبار کو تباہ کرنے کی سازش کی۔ یہاں تک کہ آپ کی دکان بھی جاتی رہی اور پھر آپ نے گھر پر کام شروع کر دیا۔ لیکن اب ہمسائے گاہکوں کو نہ صرف بہکانے لگے بلکہ سرعام نفرت کا اظہار کرتے اور گندگی اور پتھر بھی دیوار پر سے گھر کے اندر پھینکا کرتے۔ میرے بارہ سالہ بڑے بھائی کو ایک دفعہ مخالفین کے جلوس میں پیٹا گیا اور پھر ایک بدبخت اُس کے جسم پر کھڑا ہوگیا۔ قریب تھا کہ اُس کی جان نکل جاتی کہ والد محترم کسی طرح اُسے بچاکر گھر لے آئے۔ چونکہ آپ کافی تعلیم یافتہ تھے اور نیکی اور شرافت کے اوصاف بھی نمایاں تھے، اس لئے مخالفین پر ایک رعب بھی تھا اور کسی کو کبھی سامنے آکر گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہیں تھی۔ بہاولپور کے تعلیم یافتہ اور قانون سے تعلق رکھنے والے اب بھی آپ کے دوست تھے لیکن آپ نے کبھی کسی سے مدد لینا گوارا نہیں کی اور بڑے صبر سے وقت گزارتے رہے۔ پھر ربوہ ہجرت کا فیصلہ کرلیا۔ جب مخالفین کو ان کے ارادہ کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے مکانات کی قیمتیں گرادیں۔ چنانچہ آپ کو مجبوراً اونے پونے اپنا مکان بیچنا پڑا۔ ربوہ میں اپنا مکان بناکر صابن کا کاروبار شروع کیا جو چل نہ سکا اور آپ اتنے مقروض ہوگئے کہ مکان ضبط ہوگیا۔ پھر آپ چھ بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ہمراہ کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں آپ کے ساتھ ہم بچوں نے بھی بہت محنت کی اور سب نے تعلیم بھی حاصل کرلی۔ لیکن والد صاحب اپریل 2003ء میں بوجہ برین ہیمرج وفات پاگئے۔ آپ کی عمر 70سال تھی۔
آپ نہایت کم گو، شریف اور خدمت خلق کرنے والے تھے۔ پانچ وقت کے نمازی اور باقاعدہ تلاوت کرتے تھے۔ فراست بہت تھی گہرے نتائج پہ غور کرکے بات کرتے۔ میںنے ایک مرتبہ اظہار کیا کہ آپ نے اتنا کچھ احمدیت کی خاطر قربان کر دیا اور اس قدر ابتلائوںمیںپڑے۔ تو آپ کہتے میری اصل دو لت تو میری اولاد ہے۔ ربوہ سے میری تعلیمی کامیابیوں کا تذکرہ سنتے تو بہت خوش ہوتے۔ خاص طور پہ جب میرا وقف منظور ہو گیا تو میرا احترام اوربھی زیادہ کرتے اور کہتے کہ تم نے میرے سارے زخم دھو دیئے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میرا بیٹا واقف زندگی ہے۔ محلہ اور دوکان کے علاقہ میں لوگ کثرت سے قانونی اور دیگر باتوں میں آپ سے مشورہ لیتے۔ آپ کی وفات کے بعد غیرازجماعت بھی بڑی تعداد میں تعزیت کے لئے آتے رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں