مکرم چودھری نصرت محمود صاحب شہید

(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21دسمبر 2018ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29نومبر 2012ء کی خبر کے مطابق 19؍اکتوبر 2012ء کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والے مکرم چودھری نصرت محمود صاحب 27؍ نومبر 2012ء کی رات شہید ہوگئے۔ ان کی عمر 68سال تھی۔ 19؍ اکتوبر کو ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں ان کے داماد مکرم سعد فاروق صاحب موقع پر ہی شہید ہوگئے تھے جبکہ مکرم چودھری صاحب کی گردن میں ایک اور سینے میں دو گولیاں لگی تھیں اور آپ 38 روز تک زیرعلاج رہے مگر جانبر نہ ہوسکے۔ آپ گزشتہ کئی سال سے نیویارک امریکہ میں مقیم تھے اور اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلہ میں پاکستا ن آئے تھے جو مکرم سعد فاروق صاحب کی شہادت سے شادی کے صرف تین دن بعد بیوہ ہوگئیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 30؍نومبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ محترم چوہدی نصرت محمود صاحب ابن مکرم چوہدری منظور احمد صاحب گوندل کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت چوہدری عنایت اللہ صاحبؓ کے ذریعہ سے ہوا جو شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری اخلاص احمد صاحب کے کزن تھے۔ بعد میں اُن کی کوششوں سے چوہدری اخلاص احمد صاحب نے بھی خلافت اولیٰ میں بیعت کرلی۔ آپ کے خاندان کا تعلق بہلول پور ضلع سیالکوٹ سے تھا۔
مکرم چودھری صاحب 6؍مارچ 1949ء کو بہلول پور ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ مرےؔ کالج سیالکوٹ سے گریجوایشن کیا۔ پھر شاہ تاج شوگر مل منڈی بہاؤالدین میں تقریباً 35سال بطور مینیجر کام کیا۔ مرحوم انتہائی مخلص اور ایماندار شخصیت کے مالک تھے۔ ملازمت کے دوران ان کو Honesty Award بھی ملا تھا۔ 2008ء میں اپنی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ نیویارک چلے گئے اور امریکہ کی شہریت اختیار کرلی۔
شہید مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے اور آپ کو خدمتِ دین کا بےحد شوق تھا۔ منڈی بہاؤالدین میں قیام کے دوران آپ کو لمبا عرصہ بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری دعوتِ الی اللہ اور دیگر مختلف عہدہ جات پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ 2008ء میں امریکہ شفٹ ہونے کے بعد مقامی جماعت میں آپ کو بطور سیکرٹری تربیت خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔
مکرم چودھری صاحب کا خلافت سے گہرا تعلق تھا۔ تمام تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ دعوتِ الی اللہ کے پروگرام میں اگر خود شامل نہ ہو سکتے تو پھر دوسروں کو جانے کے لئے اپنی گاڑی دے دیا کرتے تھے تاکہ ثواب میں شامل ہو سکیں۔ آپ کے بیٹے کاشف احمد دانش (نائب صدر خدام الاحمدیہ کینیڈا) آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو ایک بہت ہی شفیق اور محبت کرنے والے شخص کے طور پر پایا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ہمیشہ اولاد کا بہت زیادہ خیال رکھا۔ تعلیم دلوانے کے لئے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تربیت کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔ زبان بہت اعلیٰ اور لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا۔ کبھی بھی بچوں کوتُم کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ میری جماعت کے کاموں میں دلچسپی کو بہت سراہتے تھے اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق کی تلقین کرتے تھے۔ گھر آکر سب سے پہلے اپنے بچوں کو نماز کے بارے میں پوچھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے نہ پڑھی ہوتی تو فوراً ادائیگی کے لئے کہتے۔ بچپن میں اپنے ساتھ باجماعت نماز کے لئے لے جاتے۔ کام کے دوران، سفر پر، کسی بھی جگہ پر ہوتے نماز کا خاص التزام کرتے۔ کسی سے سخت لہجے میں گفتگو نہیں کی۔ ہمیشہ اخلاقیات کا درس دیتے۔ ہر کوئی آپ کی نرم گو اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے جلد آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ مرحوم کی تین بیٹیاں بھی ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ مرحوم منڈی بہاؤالدین میں زعیم انصاراللہ تھے، سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے، نگران کمیٹی مسجد گیسٹ ہاؤس و مربی ہاؤس بھی تھے۔ پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرتے۔ مربی ہاؤس مسجد کے ساتھ ہی ملحق تھا۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ تنہائی میں مجھے عبادت کرنے کا جب بھی کبھی خیال آیا، مَیں کوشش کرتا تھا لیکن ہمیشہ جب بھی مَیں نے کوشش کی کہ فجر سے پہلے جا کے کچھ نفل پڑھوں تو مسجد میں تو ہمیشہ نصرت محمود صاحب کو وہاں موجود پایا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کر رہے ہوتے تھے۔ اپنی آمدنی کے مطابق صحیح بجٹ بنواتے تھے،چندہ کی بروقت ادائیگی کرتے تھے ۔ صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ غرباء اور ضرورتمندوں اور معذوروں کا خیال رکھتے۔ اسی طرح صفائی پسند بھی بہت تھے۔ جہاں اپنی صفائی کا خیال رکھتے وہاں گیسٹ ہاؤس وغیرہ کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے۔
مربی صاحب کہتے ہیں میرے ساتھ جاتے تھے تو کبھی کوئی دنیاوی باتیں نہیں کیں۔ ہمیشہ دعوتِ الی اللہ اور جماعت کے حوالے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی جماعتی کاموں کے لئے اور غریب بچیوں کی شادی کے لئے پٹرول ڈلوا کر دیا کرتے تھے۔ آتے جاتے اگر کسی غریب کو لفٹ کی ضرورت ہوتی تو دے دیا کرتے۔ کہتے ہیں کبھی مَیں نے اُن کو غصّہ میں نہیں دیکھا۔ایک غیراحمدی نے بتایا کہ پچیس سال سے نصرت صاحب کے ساتھ کام کر رہا ہوں، زندگی میں کبھی بھی مجھے نہیں ڈانٹا اور کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ اپنے جو ماتحت کام کرنے والے تھے اُن کو ہر عید پر نئے کپڑے اور عیدی تحفہ ضرور دیتے تھے۔ خلافت سے گہری محبت تھی۔ خطبہ ہمیشہ لائیو سنتے اور سیر کے دوران پھر اُس پر بتاتے کہ آج یہ کہا گیا ہے اور ان باتوں کی تلقین کی گئی ہے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی تلقین کرتے۔
اسی طرح کسی موقع پر ا گر کہیں جانا ہوتا تو پہلے مربی صاحب اور اُن کی فیملی کو اپنی کار پر اُس جگہ چھوڑ کر آتے، پھر واپس آکر اپنی فیملی کو لے کر دوبارہ جاتے اور اپنے ہاں دعوتوں پر غرباء کو بھی ضرور بلاتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں