مکرم چودھری عزیزاللہ چیمہ صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍ستمبر 2004ء میں مکرمہ عمارہ چیمہ صاحبہ نے اپنے دادا محترم چودھری عزیز اللہ چیمہ صاحب کا ذکر خیر تحریر کیا ہے۔
محترم چودھری عزیزاللہ چیمہ صاحب 1914ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صوبیدار میجر دیوان علی چیمہ کا تعلق دیوبند فرقہ سے تھا اور وہ علاقہ کی بااثر شخصیت تھے۔ محترم چودھری صاحب ابھی F.Sc. کے دوسرے سال میں تھے کہ جنگ عظیم دوم شروع ہوگئی۔ آپ بھی فوج میں بھرتی ہوگئے اور جلد ہی ترقی کرتے کرتے لیفٹیننٹ بن گئے۔ آپ ذہانت اور قابلیت کی بناء پر گاؤں کے نمبردار بھی بنادیئے گئے۔
جب آپ فوج میں تھے تو آپ کو ایک سینئر افسر نے یہ جائزہ لینے کو کہا کہ ماتحت عملہ اپنے وقفہ کے دوران کیا کرتا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ مختلف لوگ مختلف فضول کاموں میں مصروف ہیں لیکن ایک کیمپ سے قرآن کریم کی آواز آرہی تھی۔ آپ نے اُس شخص سے کہا کہ آپ کو بھی قرآن کریم پڑھنا سکھادے جو اُس نے قریباً ایک ماہ میں سکھادیا۔ اسی دوران تقسیم ہند کا واقعہ ہوگیا اور آپ کو الاٹمنٹ افسر بنادیا گیا۔ وہ آدمی تو چلا گیا لیکن آپ کو دو کتب ’’کشتی نوح‘‘ اور ’’احمدیت‘‘ دے گیا جن سے آپ کو احمدیت سے واقفیت پیدا ہوئی۔ اُس وقت آپ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے سسر صوبیدار میجر عبدالقادر صاحب نے احمدیت قبول کرلی۔
جب آپ الاٹمنٹ افسر مقرر ہوئے تو آپ کے والد نے خواہش کی کہ کچھ جائیداد آپ اپنے نام بھی لگوالیں لیکن آپ اس خیانت پر راضی نہ ہوئے۔ گھر میں اس بناء پر جھگڑا اتنا بڑھا کہ کچھ عرصہ کے لئے آپ اپنے سسرال منتقل ہوگئے۔ وہاں آپ کو جماعت کی بہت سی کتب پڑھنے کا موقع ملا اور 1950ء میں آپ نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ اس وقت آپ Chain Smokerتھے لیکن احمدیت قبول کرتے ہی آپ نے سگریٹ نوشی مکمل طور پر چھوڑ دی۔
آپ کے والد نے آپ کو پہلے نرمی سے احمدیت چھوڑنے کو کہا لیکن آپ کے ثبات قدم دیکھ کر مخالفت کی انتہا کردی۔ حتیٰ کہ سردیوں کی ایک رات انہوں نے آپ کو بلاکر کہا کہ احمدیت چھوڑ دو یا میرا گھر چھوڑ دو۔ اس پر آپ نے بچوں کو جگایا اور اُسی وقت بے سروسامانی میں گھر سے نکل گئے۔ والد نے پھر چند آدمیوں کو بھجوایا جو سٹیشن سے آپ کو مناکر واپس لے گئے۔ اس کے بعد انہوں نے گھر چھوڑنے کا نہیں کہا بلکہ ہر طرح سے مقاطعہ کردیا اور آپ کو جانوروں والے حصہ میں ایک کمرہ رہنے کے لئے دیدیا گیا۔
ایک دن آپ کی بیٹی بیمار ہوئی تو آپ اُسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر نے دوائی لکھ کر دی جو پانچ روپے میں آتی تھی لیکن آپ کے پاس اُس وقت ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ آپ مجبوراً بچی کو لے کر اپنے والد کے پاس گئے اور دوا کے لئے پیسے مانگے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پوری جائیداد آپ کے نام کردیں گے لیکن احمدیت چھوڑ دو۔ اس پر آپ نے کہا کہ اگر میری ساری اولاد بھی قربان ہوجائے تو بھی احمدیت نہیں چھوڑوں گا۔ دوسرے دن آپ کی بیٹی فوت ہوگئی۔
قریباً ایک ماہ بعد آپ کی دوسری بیٹی بیمار ہوئی تو وہی مسئلہ دوبارہ پیدا ہوگیا۔ والد کی وہی شرط اور آپ کا وہی جواب تھا۔ وہ بیٹی بھی اُسی دن فوت ہوگئی۔ اس پر آپ کے والد نے صاف کہہ دیا کہ اگر تم اب بھی اپنی ضد پر قائم رہے تو تمہیں جائیداد سے عاق کردوں گا۔ ایسے میں بھی آپ اپنے بچوں کو اَلَیْسَ اللہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ کے حوالے سے نصائح کرتے اور صبر کی تلقین کرتے۔ ایک رات تہجد کے بعد آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ 9؍مئی کو اللہ تعالیٰ آپ کے والد کی وفات کی صورت میں احمدیت کی سچائی ظاہر کرے گا۔ آپ نے صبح یہ بات گھر والوں کو بتادی۔ چنانچہ 9؍مئی کو جب آپ کو عاق کرنے کے سارے کاغذات مکمل تھے اور صرف والد کے دستخط باقی تھے۔ علاقے کے بااثر لوگ، پٹواری اور تحصیلدار بھی آچکے تھے کہ آپ کے والد صاحب کو اُسی وقت فالج ہوگیا جب انہوں نے دستخط کے لئے پین اٹھایا۔ اور وہ اُسی دن فوت ہوگئے۔
والد کی وفات کے بعد آپ کے بھائیوں نے بھی انتہائی مخالفت کی۔ ایک روز اسسٹنٹ کمشنر نے آپ کو بلاکر کہا کہ آپ کے بھائیوں اور بعض دوسرے لوگوں نے درخواست دی ہے کہ انہیں مرزائی نمبردار نہیں چاہئے۔ اس پر آپ نے نمبرداری چھوڑ دی جس کی وجہ سے آپ کو سوا سو ایکڑ زمین سے بھی دستبردار ہونا پڑا۔ لوگ آپ سے پوچھتے تھے کہ مرزائی آپ کو کیا دیتے ہیں جو تم اتنی زمین پر لات مار رہے ہو۔ اس کے بعد آپ کا چھوٹا بھائی نمبردار بنا جس نے مخالفت میں شدّت پیدا کردی اور کرایہ کے ایک قاتل کو آپ کے قتل کے لئے پیسے بھی دیئے۔ لیکن وہ شخص دوسرے ہی دن روتا ہوا آپ کے پاس آیا اور پاؤں پکڑ کر معافی مانگی اور بتایا کہ وہ آپ کے انتظار میں کہیں چھپا بیٹھا تھا کہ اُس نے دیکھا کہ آپ دو مضبوط جسموں والے آدمیوں کے درمیان چل رہے ہیں۔ لیکن جب آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے تو اکیلے تھے۔ اِ س پر اُس کو احساس ہوگیا کہ آپ کی حفاظت خداتعالیٰ کر رہا ہے۔
1953ء کے فسادات میں آپ کے گھر پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔ اُس وقت آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ صحن میں نفل ادا کر رہے تھے۔ معجزانہ طور پر کسی کو پتھراؤ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
ایک بار آپ کو جلسہ سالانہ میں شمولیت سے روکنے کے لئے 24؍دسمبر کو آپ کے وارنٹ گرفتاری جاری کروائے گئے اور پولیس کا پہرا گھر کے چاروں طرف لگادیا گیا تاکہ آپ نکلیں تو گرفتار ہوجائیں۔ چونکہ پھر کرسمس کی تعطیلات تھیں اس لئے گرفتاری کی صورت میں آپ جلسہ سالانہ سے یقینی طور پر محروم رہ جاتے۔ خدا تعالیٰ کی شان ہے کہ آپ اپنے گھر کے مرکزی دروازہ سے ہی نکلے لیکن کسی کی آپ پر نظر نہیں پڑی۔ آپ جلسہ سے واپس آئے تو آپ کے خلاف درج کروایا ہوا چند روپے کا کیس بھی ختم ہوگیا۔
اسی طرح پاکپتن میں جب ایک سول جج کی تعیناتی ہوئی جن کے آپ کے بھائیوں سے مراسم تھے تو آپ کے خلاف پھر ایک کیس داخل کروایا گیا اور جج سے کہہ کر تاریخ 27؍دسمبر کی رکھوائی گئی۔ جب جج نے تاریخ کا اعلان کیا تو مخالف نعرے لگاتے ہوئے عدالت سے روانہ ہوگئے لیکن آپ وہیں کھڑے رہے۔ جج نے پوچھا تو آپ نے کہا کہ آپ کا فیصلہ مجھے منظور ہوگا لیکن اگر آپ 24؍دسمبر تک کوئی تاریخ دیدیں تو مَیں جلسہ پر جاسکوں گا۔ اس پر جج نے 24؍دسمبر کی تاریخ دیدی جس کا علم مخالفین کو نہ ہوسکا۔ آپ 24؍دسمبر کو پیشی کے بعد ربوہ جلسہ پر چلے گئے۔ مخالفین جب 27؍دسمبر کو عدالت میں پہنچے تو انہیں صورتحال کا علم ہوا۔ اس پر انہوں نے مقدمہ کسی اَور جج کے پاس منتقل کروانے کے لئے ایک درخواست لکھی۔ جج کو بھی اس درخواست کا علم ہوگیا۔ اُس نے اسے اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے 24؍دسمبر کو فرضی کارروائی ڈال کر فیصلہ لکھ دیا جس میں آپ کو بری کردیا گیا۔
آپ نے نامساعد حالات کے باوجود اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ بڑے بیٹے نے M.Sc. کے بعد نصرت جہاں کے تحت سیرالیون میں خدمات سرانجام دیں۔1987ء میں اس بیٹے کی ہارٹ اٹیک سے اچانک وفات ہوئی تو اس موقع پر بھی مخالفین نے آپ پر بہت طنز کیا لیکن آپ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا۔
1974ء کے فسادات میں مخالفین نے آپ کے سر کی قیمت مقرر کی اور ایک بڑا لشکر گھر پر حملہ آور ہوا۔ آپ شہادت کی خواہش رکھتے تھے لیکن پھر گھر والوں کے اصرار پر ہمسائے کے گھر میں چھپ کر جان بچائی۔ جلوس نے آپ کے گھر کو لُوٹ کر آگ لگادی جو کئی دن تک سلگتی رہی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام گھروالوں کی حفاظت کی۔ کچھ لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا کہ کسی اَور شہر میں منتقل ہوجائیں۔ آپ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے پوچھا تو حضورؒ نے اجازت نہیں دی چنانچہ پھر آپ نے کبھی وہاں سے کہیں اَور جانے کا نہیں سوچا۔
فسادات کے بعد زمین میں ہل چلانے کے لئے کسی نے آپ کو ٹریکٹر نہیں دیا چنانچہ آپ نے ہاتھ سے کھدائی کرکے کپاس کی فصل کاشت کی۔ اُس سال علاقہ میں کپاس کی فصل پر وائرس کا حملہ ہوا لیکن آپ کی فصل بغیر سپرے کے بھی اتنی اچھی تھی کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ آپ نے کپاس کا بیج ربوہ سے لاکر ڈالا ہے۔ آپ نے ایک پولٹری فارم بھی بنوالیا۔ جب حالات اچھے ہوئے تو بھائیوں نے دو مرتبہ آپ کے گھر چوری کروائی لیکن ثبوت ہونے کے باوجود آپ نے اُن کے خلاف کارروائی نہ کی۔
آپ نے گھر پر ایک کلینک بھی بنارکھا تھا۔ آپ ڈاکٹر نہیں تھے لیکن خدا تعالیٰ نے ہاتھ میں شفا بہت رکھی تھی۔ ہر کسی کو مفت دوائی دیتے اور مریضوں کا ہجوم وہاں رہتا جن میں مخالفین بھی شامل ہوتے۔ عام لوگ آپ کو بہت محبت سے ملتے اور تایا جی کہہ کر پکارتے۔
آپ عارف والا کی جماعت کے صدر اور ساہیوال ضلع کے نائب امیر بھی رہے۔ بڑھاپے اور بیماری کے باوجود خدمت کے لئے مستعد رہتے۔ 1991ء میں دل کا حملہ ہوا تو ڈاکٹروں نے سفر سے منع کردیا لیکن اُسی سال چونکہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ بھی قادیان تشریف لا رہے تھے اس لئے محترم چودھری صاحب اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر قادیان چلے گئے۔ جلسہ میں حاضر ہوئے لیکن واپسی پر 2؍جنوری 1992ء کو لاہور میں ہی وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں