مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍ستمبر 2012ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرمہ ب۔ودودصاحبہ نے سانحہ لاہور میں شہادت پانے والے اپنے شوہر مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت عبدالحمید شملوی رضی اللہ عنہ کے پوتے اور مکرم عبدالمجید عاجز صاحب کے بیٹے مکرم عبدالودود صاحب کی عمر بوقت شہادت 55سال تھی۔ پانچ بھائیوں اور تین بہنوں میں آپ کا تیسرا نمبر تھا۔ بچپن میں انتہائی صحتمند اور خوبصورت بچے تھے، پڑھائی میں ذہین، کھیلوں کے شوقین اور دلیر۔ نوعمری میں ہی والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا لیکن باپ کو اپنے اس بیٹے میں کچھ الگ صلاحیتیں نظر آئی تھیں اسی لئے وفات سے ایک رات پہلے آپ کو بلاکر بہت سی نصائح کیں اور خاص طور پر یہ کہا کہ میرے بعد اپنی والدہ اور بہنوں کا خیال رکھنا۔ آپ نے اس نصیحت کو ہمیشہ پلّے سے باندھے رکھا۔ والدہ محترمہ امۃاللہ بیگم صاحبہ سابقہ صدر لجنہ حلقہ مصطفیٰ آباد لاہور کی دعائوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے قبولیت بخشی اور کڑے حالات میں سر خرو کیا۔
محترم پروفیسر صاحب نے M.A. انگلش اور L.L.B. کیا ہوا تھا اور 23سال سے کالج میں پڑھا رہے تھے۔ اس عرصہ میں چار شہروں میں متعیّن رہے۔ ہرجگہ آپ کے احمدی ہونے کی خبر آپ سے پہلے پہنچ جاتی لیکن آپ اپنی سادگی ،ایمانداری اور بلند کردار کی وجہ سے ہر جگہ عزت سے دیکھے جاتے تھے۔ اگرچہ بعض متعصب لوگ نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کرتے رہے بلکہ ایک پرنسپل نے تو دو مرتبہ آپ کی ACRبھی خراب کردی مگر آپ ہمیشہ یہی کہتے کہ یہ صر ف جماعتی مخالفت کی وجہ سے ہوا ہے اس لئے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اور قدرت کا رنگ دیکھئے کہ جتنی دیر آپ کی پروموشن کے لئے نام نہ گیا پنجاب میں پروموشن پر پابندی لگی رہی اور آپ کا کچھ نقصان نہ ہوا۔
آپ نے دینی خدمات کا شوق ورثہ میں پایا تھا۔ خدام الاحمدیہ میں لمبا عرصہ زعیم حلقہ رہے اور 1992ء سے لے کر2001ء تک صدر حلقہ مصطفیٰ آباد رہے۔
نماز اور تلاوت کی عادت آپ کو بچپن سے والدہ نے ڈالی تھی جو تلاوت کے بغیر ناشتہ نہ دیتیں۔ کچھ عرصہ سے قرآن کریم لفظی ترجمہ سے بھی سیکھنا شروع کیا ہوا تھا۔ چنانچہ آپ فجر پر معمول کی تلاوت کرتے، ظہر کے بعد ترجمہ یاد کرتے اور مغرب کے بعد زبانی مجھے سناتے اور میرا سبق خود سنتے اس طرح16پارے سیکھ لئے تھے۔پھر بچوں کا سبق سنا جاتا اور آخر میں حدیث کا درس ہوتا۔
آپ ایک دعا گو انسان تھے اور میرے دل میں یہ یقین تھا کہ اگر آپ میرے لئے دعا کریں گے تو وہ جلد قبول ہوگی۔ بارہا مجھے اس کا تجربہ بھی رہا کہ میں کسی تکلیف میں تھی اور آپ نے دعا پڑھ کر مجھ پر پھونکا اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کیسے تکلیف ختم ہو گئی۔
آپ کی شہادت سے ایک ماہ قبل ہمارے ایک بیٹے کا سالانہ امتحان تھا۔کمپیوٹر کا پیپر تھا تو آپ کو اچانک ایک جنازہ کے ساتھ ربوہ جانا پڑ گیا۔ آپ نے مجھے کہا کہ آج یہ اپنی تیاری سے مطمئن نہیں اس کے لیے خاص دعا کرنا، مَیں بھی کروں گا۔ جب بچہ پیپر دے کر آیا تو کہنے لگا کہ درمیانہ سا پیپر ہوا ہے۔ شام کو آپ کی واپسی ہوئی تو مَیں نے آپ کو یہ بات بتا دی مگر آپ نہایت یقین سے کہنے لگے کہ انشاءاللہ اس پرچہ میں اس کے سب پرچوں سے زیادہ نمبر آئیں گے۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔
گھر میں آپ کی موجودگی میں زیادہ تر MTA چلتا۔ آپ کے پسندیدہ پروگراموں میں خطبہ جمعہ کے علاوہ سیرت النبی ﷺ اور سیر ت صحابہ ؓ پر تقاریر تھیں جب بھی یہ تقاریر سنتے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ سیر کرتے ہوئے تسبیحات پڑھتے رہتے۔
خلافت سے محبت کا خاص تعلق تھا۔ خطبہ جمعہ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر سنتے اور خلافت سے خاص تعلق رکھنے کی نصیحت کرتے۔ 1974ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف لاتے تھے تو آپ کو بھی ڈیوٹیاں دینے کی سعادت ملتی رہی۔
دوسروں کو دے کر زیادہ خوشی محسوس کرتے مگر خود انتہائی سادگی پسند تھے،نہ زیادہ کپڑے بنانے کا شوق اور نہ زیادہ دوسری چیزوں کا۔ آپ کا دل کمزوروں کے معاملے میں بہت حسّاس تھا۔ خاموشی سے مدد کرتے۔ اپنے بھائیوں سے بھی کہہ رکھا تھا کہ کسی ضرورتمند کی مدد کرنی ہو تو مجھے بتا دیا کرو۔ آپ کے کالج میں ایک عیسائی کی وفات ہوئی تو تعزیت کے لئے جانے والوں سے آپ نے کہا کہ صرف تعزیت ان کے مسائل حل نہیں کر پائے گی اس لئے سب کچھ نہ کچھ رقم دیں جس سے اُس کی مدد کی جائے چنانچہ اس بیوہ کو یہ رقم دی گئی تو وہ بے اختیار دعائیں دینے لگی۔
1995ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ اُنہی دنوں میں ہمارا نیا گھر زیر تعمیر تھا۔ ابھی لکڑی کا کام باقی تھا۔ آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سر چھپانے کے لئے انتظام کر دیا ہے، اب پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کریں باقی کام بعد میں کریں گے۔ چنانچہ حصہ جائیداد ادا کرنے کے لئے کئی کمیٹیاں ڈال دیں جونہی رقم آتی آپ فوراً ادائیگی کرتے۔ چنانچہ شہادت سے پہلے سارا حصہ جائیداد ادا کرچکے تھے۔
ایک مرتبہ بعض ورثا نے ایک مکان کی وراثت کی تقسیم کے سلسلے میںآپ کی مدد چاہی (کیونکہ آپ نے L.L.Bکیا ہوا تھا)۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ کیس تھا کیونکہ ورثاء میں ایک خاتون ایسی بھی تھیں جو ذہنی طور پر نارمل نہ تھیں اور ایک کم عمر بچی کی ماں تھیں۔ آپ نے محض لِلّٰہ اس مسئلے کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور کئی ماہ کی محنت کے بعد اس مکان کی شرعی تقسیم ہو گئی۔ کئی مرتبہ مخالف پارٹی کی جانب سے دھمکیاں بھی ملتی رہتیں۔ مَیں نے آپ کی جان کے خوف سے کہا کہ آپ کیوں کسی کے معاملے میں پڑ رہے ہیں تو کہنے لگے جب میں حق کا ساتھ دے رہا ہوں تو مجھے کوئی ڈر نہیںایسی کمزور ذہن خاتون کو جب حصہ جائیداد ملا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اُن کا اطمینان دیکھ کر آپ کہنے لگے ’’اس بے بس عورت کو خوش دیکھ کر میرے اندر سکون اتر آیا ہے، شاید قدرت کو میری یہ نیکی پسند آجائے‘‘۔
آپ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ایک احمدی کا اچھا کردار ہی اس کی تبلیغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اور درحقیقت آپ ایسے ہی کردار کے مالک تھے۔ ہر بات کو قرآن اور حدیث سے ثابت کرنا، کم مگر سلجھی ہوئی بات کرنا،طبیعت میں حیا اور دین کے اصولوں کی پابندی، آپ کو دوسروں سے ممتاز کر دیتی اور باوجود اس کے کہ لوگوں کو آپ کے احمدی ہونے کا علم تھا وہ کسی بھی شرعی مسئلے میں آپ کی رائے کو اہمیت دیتے تھے۔ آپ بھی عام گفتگو میں تبلیغ کا موقع پیدا کر لیتے اور یہ شوق جوانی سے تھا۔
آپ، آپ کے تین بھائیوں اور ایک کزن پر 1985ء میں لاہورمیں کلمہ کیس بنا۔ یہ مقدمہ تقریباً سات سال چلا۔ آپ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ اس مقدمہ نے ہم سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے دروازے کھول دیئے ہیں اور ہمیں بہت ترقیات سے نوازا ہے۔چونکہ آپ خود اسیر راہ مولیٰ رہ چکے تھے اس لیے اسیران راہ مولیٰ سے بھی محبت رکھتے تھے۔ اسیرانِ ساہیوال سے ملاقات اور مدد کے لئے مختلف مقامات پر پہنچتے رہے۔
5 ؍دسمبر1986ء کو ہماری شادی ہوئی۔ ہم قدرے مختلف طبیعتوں کے مالک تھے۔ آپ بُردبار اور ہر لفظ سوچ کر بولنے والے اور مَیں کسی حد تک بے فکر۔ مگر محبت کا جو تعلق پہلے روز ہما رے درمیان قائم ہوا وہ ان 23سالوں میں کہیں کا کہیں جا پہنچا۔ گھر میں مسکراتے ہوئے داخل ہونا اور سیر سے واپسی پر میرے لیے موتیے کے پھول لانا، ہر بات شیئر کرنا اور ہر پریشانی میں میرے لیے ڈھال بن جانا۔ شادی کے چھٹے سال اللہ تعالیٰ نے ہمیں اولاد کی نعمت سے نوازا اس عرصہ میں آپ نے ایک مرتبہ بھی مجھے اس کمی کا احساس نہ دلایا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

مکرم پروفیسر عبدالودود صاحب” ایک تبصرہ

  1. اخلاق ہی وہ ہتھیار ہے جس سے اسلام غیروں کو بھی اپنا بنا لیتا ہے اخلاق ہی کی وجہ سے انسان حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے
    برد باری اخلاق کی ایسی کڑی ہے جس سے انسان معاشرے کا بہترین فرد قرار دیا جاتا ہے لوگوں کے درمیان معزز ہوتا ہے

Leave a Reply to محمد علی Cancel reply