مکرم نعمت اللہ صاحب شہید نارووال

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ستمبر 2011ء میں عزیزم ذیشان نعمت اللہ نے اپنے والد مکرم نعمت اللہ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جنہیں نارووال میں رات کو اُن کے گھر میں حملہ کرکے شہید کردیا گیا۔
مکرم نعمت اللہ صاحب 1956ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا محترم میاں چراغ دین صاحب نے آپ کا نام نعمت اللہ اُس بزرگ کے نام پر رکھا جنہیں افغانستان میں سنگسار کرکے شہید کردیا گیا تھا۔ آپ پیدائشی طور پر کچھ کمزور تھے اور اکثر بیمار رہتے تھے۔ لوگ آپ کے دادا کو کہتے کہ بچے کا نام بدل دو تو یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن وہ جواب دیتے کہ اس کا نام ایک شہید کے نام پر رکھا ہے اس لیے چاہے اس کی جان چلی جائے لیکن اس کا نام تبدیل نہیں کروں گا۔
مکرم نعمت اللہ صاحب ایک خوش شکل، خوش اخلاق اور اپنے حلقۂ احباب میں ہردلعزیز تھے۔ میٹرک کرکے ڈرائیونگ کو بطور پیشہ اپنایا۔ کچھ عرصہ عمان میں رہے۔ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کا بہت خیال رکھا۔ اپنے چار بھائیوں کو بھی اپنے ساتھ عمان لے گئے اور کاموں پر لگوایا۔ ہمسایوں کے ساتھ بھی بہت عمدہ تعلق تھا۔ بچوں کی تربیت کا خیال رکھتے اور نماز کی تلقین کرتے۔ حلقے کے احمدی بچے اور بچیاں آپ کی اہلیہ سے قرآن کریم پڑھنے آتے تھے۔ اگر کوئی بچہ ضد کرتا تو آپ اُسے کوئی لالچ دے کر پڑھنے پر آمادہ کرلیتے۔
کسی نے شہید مرحوم کی ایک کنال زمین پر قبضہ کرلیا۔ آپ نے علاقے کے ناظم اور نائب ناظم اور تحصیلدار سے رابطہ کیا تو ایک ہی جواب ملا کہ آپ اچھے لوگ ہیں لیکن ہم قادیانیوں کی مدد نہیں کرسکتے۔ آپ کا بھی ایک ہی جواب تھا کہ احمدیت پر تو جان بھی قربان ہے یہ تو پھر تھوڑی سی زمین ہے۔
شہادت سے پہلے آپ غیرمعمولی لمبی نمازیں ادا کرتے۔ دعوت الی اللہ کے شیدائی تھے۔ سانحہ لاہور والے دن بہت بے چین تھے۔ اس واقعے کے بعد آپ کے قصبے کے ایک مُلّا نے کہنا شروع کردیا کہ مَیں اپنے علاقے کو قادیانیوں سے پاک کردوں گا۔ اسی جنون میں اُس نے 31مئی 2010ء کی رات آپ کے گھر میں داخل ہوکر چھریوں کے پے در پے وار کرکے آپ کو شہید کردیا۔ آپ کے بڑے بیٹے منصور احمد جب آپ کو بچانے کے لیے آئے تو وہ بھی شدید زخمی ہوئے اور بعدازاں قریباً ایک ماہ تک لاہور کے ہسپتال میں زیرعلاج رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں