مکرم میجر سید سعید احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍مارچ 2007ء میں مکرم سید حسین احمد صاحب اپنے مضمون میں اپنے والد محترم میجر سید سعید احمد صاحب کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہیں۔
میرے دادا محترم ظہورالحسن احمدی صاحب نے 1910ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر 23سال کی عمر میں بیعت کی تھی۔ 1937ء کے جلسہ سالانہ پر وہ شدید سردی سے نمونیا میں مبتلا ہوکر 18 جنوری 1938ء کو بنوں میں وفات پاگئے جہاں وہ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔ جنازہ قادیان لایا گیا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔ آپ کو سلسلہ سے بہت محبت تھی اور بہت نڈر احمدی تھے۔ اکثر قادیان جاتے۔ حضرت مصلح موعودؓ سے خاص عقیدت اور محبت تھی۔ مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا۔ کتب حضرت مسیح موعودؑ کے اوّل ایڈیشن حاصل کرکے ان کے نوٹس تیار کرتے۔ آپ کا تعلق لدھیانہ کے معروف محلہ صوفیاں سے تھا۔ آپ کے ماموں ڈپٹی امیر علی صاحب کی کوٹھی میں حضرت اقدس علیہ السلام نے 1884ء میں قیام فرمایا تھا۔ ڈپٹی صاحب بہت علم دوست انسان تھے۔
محترم ظہورالحسن احمدی صاحب محکمہ PWD میں ملازم تھے۔ صوبہ سرحد کے مختلف شہروں میں متعین رہے۔ آپ نہایت سادہ مزاج، صوفی منش، دیانتدار اور دعا گو انسان تھے۔ آپ نے شدھی کی تحریک کے دوران احمدی مجاہدین کے ساتھ خدمت سرانجام دی۔ آپ کے 5 لڑکے اور 4 لڑکیاں تھیں۔ سب سے بڑے سید ابوالحسن صاحب S.P پولیس افسر تھے۔ 1948ء میں حضرت مصلح موعودؑ کے دورہ لنڈی کوتل اور طورخم کے دوران اپنی نئی گاڑی Chevrolet پیش کی اور گاڑی چلانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ دوسرے نمبر پر بریگیڈیئر ڈاکٹر سید ضیاء الحسن صاحب راولپنڈی تھے۔ آپ ناظم ضلع انصاراللہ اور سیکرٹری اصلاح و ارشاد کے عہدہ پر بھی کام کرتے رہے۔ وفات 1994ء میں ہوئی۔ پھر محترم سید سعید احمد صاحب تھے جو 1919ء میں مالاکنڈ صوبہ سرحد میں پیدا ہوئے۔ جب حضرت مصلح موعودؓ نے 1934ء میں تحریک جدید کے اعلان پر توجہ دلائی کہ احمدی اپنی اولاد کو مرکز سلسلہ قادیان، حصول علم اور پاک دینی ماحول کے لئے بھجوائیں۔ اسی سال آپ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان داخل کرا دیا گیا۔ آپ نے 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ رہائش تحریک جدید بورڈنگ میں تھی۔ حضورؓ اور صحابہؓ کی مجالس اور قرآن و حدیث کے درس میں شامل ہوتے۔ کتب سلسلہ کے مطالعہ کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔ ہاکی اور فٹبال ٹیم کے پُرجوش کھلاڑی تھے۔ میٹرک کے بعد خالصہ کالج امرتسر میں داخلہ لیا تو وہاں کی فٹبال ٹیم کے کپتان بنا دیئے گئے۔ F.A. کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوئے لیکن جنگ عظیم دوم شروع ہونے پر آپ تعلیم چھوڑ کر فوج میں شامل ہوگئے اور 1943ء میں کمیشنڈ افسر کی حیثیت سے پاس آؤٹ ہوئے۔ مختلف جگہوں پر تعینات رہنے کے باوجود آپ کا رابطہ قادیان اور پھر ربوہ کے ساتھ بدستور قائم رہا۔ چندہ کی رسیدیں سنبھال کر رکھتے۔ اپنی پہلی تقرری کی خوشی میں جالندھر کینٹ سے 114 روپے چندہ بھجوایا تو ناظر صاحب مال کا رسیدی کارڈ 1943ء کا اب بھی محفوظ ہے۔ 1947ء میں حفاظت مرکز قادیان کے لئے بھی فرائض اداکئے۔
دسمبر 1949ء میں ربوہ میں آپ کا نکاح محترمہ سیدہ بشریٰ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے پڑھایا۔ اُس وقت آپ پشاور میں تعینات تھے۔ محترمہ سیدہ نے پشاور کی لجنہ کو بیدار کرنے کے لئے بہت محنت سے کام کیا۔ پھر جہاں بھی رہیں احمدی مستورات کو لجنہ کی تنظیم سے وابستہ کیا اور قادیان اور ربوہ کی اعلیٰ تربیت کا فیض عام خواتین کو بھی پہنچایا۔ آپ نے ہر موقعہ پر برقعہ کے ذریعہ بہترین پردہ کیا اور اسی پردہ میں ہی فوجی پریڈ اور دیگر ملکی تہواروں کی تقاریب میں موجود ہوا کرتیں۔ پشاور، ایبٹ آباد اور مری کی تقرری کے دوران خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے افراد اور متعدد عزیز و اقارب موسم گرما میں ان کے ہاں ٹھہرتے تو دونوں میاں بیوی مہمانوں کی خدمت اور خبرگیری میں ہمہ تن مصروف رہتے۔ دورانِ ملازمت آپ نے تعلق احمدیت کا بڑے فخر سے ہمیشہ اظہارکیا۔ 1956ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ کا قیام خیبرلاج مری میں تھا تو آپ بھی مری میں ہی تعینات تھے۔ نمازوں میں حاضر ہونا اور انتظامات میں مدد کرنا آپ کا معمول تھا۔
1972ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جب موسم گرما میں ایبٹ آباد مقیم تھے تو آپ بھی ایبٹ آباد میں تعینات تھے۔ دو ماہ تک مہمانوں کی کثیر تعداد کے باعث دونوں میاں بیوی نے اپنی چارپائیاں برآمدہ میں ڈال کر تمام کمرے مہمانوں کو دیدئے تھے۔ اسی دوران 13 جولائی 1972ء کی شام آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو تاریخی آرمی میس ایبٹ آباد میں چائے کی دعوت پر مدعو کیا۔ حضورؒ تشریف لائے تو تیس چالیس فوجی افسران نے استقبال کیا۔ ابتدائی تعارف اور استقبالیہ جملوں کے تبادلہ کے بعد حضورؒ نے اپنے 1970ء کے کامیاب دورۂ افریقہ کی روئداد بیان فرمائی اور مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔ نیز آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں تعلیم کا ذکر بھی آیا۔ ان تمام واقعات کے بیان کرتے وقت ان فوجی افسران کے چہروں کے تاثرات اجنبیت سے اپنائیت کی طرف مائل ہوتے گئے۔ اس وقت حضور کی شخصیت کا جمال و جلال عروج پر تھا۔
1973ء میں آپ کا تبادلہ کورہیڈکوارٹر منگلا چھاؤنی ہوا۔ کورکمانڈر جنرل عبدالعلی ملک صاحب تھے اور ان کی بیگم صدر لجنہ تھیں۔ آپ کی اہلیہ جنرل سیکرٹری تھیں۔ اس کے علاوہ ایک درجن احمدی فوجی افسران اور فیملیز بھی یہاں مقیم تھیں۔ آپ کا گھر نماز جمعہ اور اجلاسات کا مرکز ہوا کرتا تھا اور آپ ہی امامت کرواتے تھے۔
آپ بالالتزام جلسہ سالانہ ربوہ میں بچوں کو ساتھ لے کر شامل ہوا کرتے۔ دیگر مواقع پر بھی ربوہ جاتے۔ جلسہ سالانہ پر کئی سال حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے عملہ حفاظت خاص میں ڈیوٹی بھی دی۔ ربوہ میں منعقدہ فضل عمر درس القرآن کلاس میں اپنے دونوں بیٹوں کو بھواتے۔ گھر پہ نماز باجماعت خود پڑھایا کرتے۔ سب بچوں نے سکول کے ایام میں ہی ترجمہ قرآن کریم اپنی والدہ صاحبہ سے سبقاً سبقاً پڑھ لیا تھا۔ ہر سپارے کے اختتام پر تحریری امتحان لیا جاتا۔ ایک چارٹ پر پڑھے ہوئے رکوعات کی تعداد درج کی جاتی اور اوّل آنے والے کو انعام ملتا۔
آپ 1945ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ غرباء اور ضرورتمندوں کی خاموشی سے امداد کرتے۔ اپنے زرعی رقبہ ضلع قصور میں جہیز کیلئے غریب مزارعین کو رقم دیتے۔ ایک بچہ کی آنکھ کے علاج کیلئے دس ہزار روپے دیئے۔ آپ تین سال زعیم انصاراللہ حلقہ چھاؤنی لاہور بھی رہے۔ ایک سال مجلس مشاورت ربوہ کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ حلقہ کیولری گراؤنڈ کے محصل مال کے طور پر بھی خدمت بجالاتے رہے۔
16؍جولائی 2005ء کو 86 سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں