مکرم میاں جمال احمد صاحب

ماہنامہ ’’انصاراللہ ‘‘ ربوہ کا جون 2005ء کا شمارہ ’’وصیت نمبر‘‘ کے طور پر شائع ہوا ہے۔ اس شمارہ میں مکرم شیخ طارق محمود صاحب پانی پتی اور مکرم شیخ ناصر احمد صاحب کے قلم سے لاہور کے نوجوان مکرم میاں جمال احمد صاحب ابن مکرم مستری نذر محمد صاحب آف حلقہ بھاٹی گیٹ لاہور کا ذکرخیر بھی شامل ہے جو 1953ء کے فسادات میں شہید ہوئے۔ آپ وہ خوش نصیب غیرموصی ہیں جن کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ارشاد کے تحت بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا۔
مستری صاحب کی رہائش گاہ محلہ گیٹ رنگہ میں تھی اور مستری نذر محمد صاحب کا لکڑی کا آرا چوک یادگار کے قریب ٹیکسالی گیٹ کے سامنے تھا ۔ فسادات کے دوران مستری صاحب نے اپنے گھر والوں کو رنگ محل میں منتقل کر دیا تھا ۔اور خود اپنے صاحبزادے میاں جمال احمد صاحب کے ساتھ گھر کی رکھوالی کیلئے ٹھہرے ہوئے تھے ۔6مارچ 1953ء کو صبح مستری صاحب ڈاکٹر عبدالقادر صاحب چینی کے گھر چلے گئے اور میاں جمال احمد صاحب اپنی سائیکل پکڑ کر رنگ محل کی طرف چل پڑے۔ اسی دوران مستری صاحب کو پتہ چلا کہ ان کے آرا پر آگ لگا دی گئی ہے اور وہ اس سلسلہ میں مصروف ہوگئے ۔میاں جمال صاحب جب رنگ محل جارہے تھے تو سامنے سے شرپسندوں کا ایک جلوس آگیا جس میں میاں صاحب کے محلہ دار بھی تھے۔ انہو ں نے جمال احمد صاحب کو پکڑ لیا کہ یہ بھی مرزائی ہے اس کو مارو۔ کچھ محلہ داروں نے کہا کہ تم کہہ دو کہ تم احمدی نہیں، تم کو چھوڑ دیتے ہیں ۔مگر آپ نے انکار کردیا۔ پھر ایک شخص نے آپ سے کان میں کہا کہ تم صرف مجھے کہہ دو کہ تم مرزائی نہیں ہو میں تم کو بچا لیتا ہوں۔ مگر آپ نے اتنا بھی گوارا نہیں کیا کہ جان بچانے کیلئے جھوٹ بولتے۔ اس پر تمام مجمع آپ پر ٹوٹ پڑا اور پتھروں اور چاقوؤں سے وار کرکے آپ کو شہید کر دیا ۔اس واقعہ کا گھر والوں کو علم نہ تھا ،بعد میں آرمی والوں کو لاش ملی تو انہوں نے اعلان کیا کہ ایک نامعلوم لاش ملی ہے- اس لاش کو جب مستری نذر محمد صاحب نے دیکھا تو بوٹوں سے پہچان لیا کہ یہ تو میاں جمال احمد صاحب کی لاش ہے اور انہوں نے گھر والوں کو آکر اطلاع دی ۔ اس وقت آرمی والے ہی لاش لے گئے اور امانتاً دفن کردیا۔ تقریباً چھ ماہ بعد جب بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین کا فیصلہ ہوا تو آرمی والوں نے ان کی لاش کا تابوت ٹیکسالی گیٹ کے سامنے ان کے آرے والی جگہ پرا ن کے گھر والوں کے حوالے کر دیا۔ تابوت کا کچھ حصہ خراب ہو چکا تھا۔ مستری نذر محمد صاحب نے ایک ساگوان کی لکڑی کا تابوت تیا ر کیا اور پرانے تابوت کو لاش سمیت اس میں ڈال دیا۔
میاں جمال احمد صاحب کے چھوٹے بھائی نصیرالدین صاحب اور انکی ایک بہن کے بقول جب اسوقت تابوت کی لکڑی لگائی گئی تو ایک خاص قسم کی خوشبو آرہی تھی۔ جوان کے مطابق انہوں نے کبھی نہیں سونگھی۔ ان کا کہنا تھا کہ خوشبو میں خاص قسم کی مٹھاس تھی۔ اس کے بعد ان کا تابوت ربوہ پہنچایا گیا اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی۔
میاں جمال احمدصاحب اس وقت T.I کالج لاہور میںF.Sc.کے طالبعلم تھے ۔ وہ سکاؤٹ تھے اور کھیلوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے ۔ہاکی یا فٹ بال کی ٹیم کے ممبر تھے۔ جماعت کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔اپنے گھر کے باہر ایک بورڈ بنایا ہوا تھا اور اس پر مینارۃ المسیح کی تصویر بنائی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ انہوں نے ایک عبارت بھی لکھی ہوئی تھی کہ قادیان ہماری چیز ہے یہ ضرور ہمیں مل کر رہے گی ۔جمال صاحب نے اپنا تخلص محبوب رکھا ہوا تھا ۔اور اس بورڈ پر بھی لکھا ہوا تھا ۔
جب کبھی حضور لاہور تشریف لاتے تو جمال صاحب ڈیوٹی کیلئے موجود ہوتے اور خوش دلی سے ڈیوٹیاں دیا کرتے تھے ۔جمال صاحب نرم مزاج کے تھے اور لڑائی سے پرہیز کیا کرتے تھے ۔اور اگر کوئی لڑپڑتا تو اسے پنجابی میں کہتے ’’ تیرا بھلا ہو‘‘۔میاں جمال احمد صاحب کے دو تین بھائی بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے اس لئے والدین کیلئے باقی اولاد بہت عزیز ہوتی ہے۔ وفات پر والدہ صاحبہ کا ضبط قابل ستائش تھا۔ وہ اگرچہ کانپ رہی تھیں مگر بے صبری کا کلمہ منہ سے نہ نکالا اور نہ ہی کوئی آنسو بہایا۔ بلکہ انہوں نے باقی بچوں کو بھی سختی سے منع کردیا کہ کوئی نہ روئے۔
میاں جمال صاحب کے والدین 1986ء میں فوت ہوئے پہلے والدہ اور پھر چھ ماہ بعد ہی والد بھی فوت ہوگئے۔ دونوں بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ میاں جمال صاحب کے تین بھائی بچپن میں فوت ہوگئے تھے۔ ایک بھائی نصیرالدین صاحب حیات ہیں۔ تین بہنیں بھی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں