مکرم مہر مختار احمد صاحب سرگانہ کا ذکر خیر

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍مئی 2010ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب نے اپنے مضمون میں مکرم مہر مختار احمد صاحب سرگانہ کا ذکر خیرکیا ہے۔ قبل ازیں ان کے بارہ میں ایک مضمون 9؍نومبر 2012ء کے شمارہ کے اسی کالم میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔
مکرم مہر مختار احمد صاحب آف باگڑ سرگانہ کی پیدائش 1937ء میں ہوئی تھی۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ پیشہ کے لحاظ سے زمیندار تھے۔
خاکسار (مضمون نگار) کے والد مکرم صوفی حافظ محمد یار صاحب 1978ء میں خدائی اشارہ کے ماتحت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے دست مبارک پر دستی بیعت سے مشرف ہوئے۔ مکرم والد صاحب حافظ قرآن، عالم دین اور صوفی تھے۔ بیعت کرنے پر آپ کی علاقہ میں شدید مخالفت ہوئی۔ اس لئے حضورؒ کی ہدایت پر ہمیں کچھ عرصہ کے لئے باگڑسرگانہ میں عارضی رہائش اختیار کرنا پڑی۔ اس وقت خاکسار کی عمر 12 سال تھی۔ ہم لوگ مہر صاحب کے ہاں سات ماہ قیام پذیر رہے۔ اس عرصہ کے دوران آپ کو بالکل قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سات ماہ کے بعد حضورؒ کی خاص توجہ اور دعاؤں کے طفیل ہم اپنے مکان میں واپس آگئے۔ تاہم مہر صاحب سے ملاقات و رابطہ کا یہ سلسلہ آپ کی وفات تک جاری رہا۔
محترم مہر صاحب کی بہادری اور غیرت ایمانی کا واقعہ اس وقت رونما ہوا جب ہم ہجرت کرکے آپ کے پاس باگڑسرگانہ آگئے تو ہمارے آبائی گاؤں و علاقہ کے معززین، علماء اور پیر اکٹھے ہو کر مہر صاحب کی برادری کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے حافظ صاحب کو ان کے گھر سے نکال دیا ہے لیکن آپ کے ایک مہر مختار احمد صاحب نے ان کو پناہ دے رکھی ہے، ان کو یہاں سے نکالو ورنہ ہمارے آپ کے ساتھ تعلقات خراب ہوجائیں گے کیونکہ ہمیں بڑا خطرہ یہ ہے کہ حافظ صاحب کے شاگرد و معتقدین قریب ہونے کے باعث حافظ صاحب سے رابطہ میں رہیں گے اور اس طرح وہ بھی بے دین ہو جائیں گے۔ چنانچہ سرگانہ برادری اکٹھی ہوکر مہر صاحب کو سمجھانے لگی کہ حافظ صاحب کو یہاں سے نکال دو ورنہ ہمارے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ تب آپ نے کہا یہ ہرگز نہ ہوگا۔ پھر انہوں نے دھمکی دی کہ ہم ان کو مار ڈالیں گے۔ مہر صاحب نے کہا یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، جب تک دم میں دم ہے حافظ صاحب کی حفاظت ہوگی اور آپ پہلے مجھے جان سے ختم کریں گے پھر حافظ صاحب تک پہنچ سکیں گے۔ چنانچہ برادری ناراض ہو کر واپس چلی گئی۔
مہر صاحب ایک مخلص باپ کے مخلص بیٹے تھے۔ زمیندارہ ماحول میں سچ جھوٹ کا امتیاز نہیں کیا جاتا لیکن آپ ہمیشہ صداقت شعار تھے۔ سچی گواہی دینا اور سچ بات کہنا آپ کا وطیرہ تھا۔ علاقہ میں آپ کے احمدی ہونے کی وجہ سے لوگ مخالف تو تھے ہی لیکن جب کسی کی چوری، جھگڑا اور تصفیہ کا معاملہ ہوتا تو لوگ کہتے ہیں کہ اگر مہر صاحب آپ کے حق میں گواہی دیں یا قسم اٹھا دیں تو ہم اس فیصلہ کو مان لیں گے۔ چنانچہ آپ کے ذریعہ سے کئی مقدمات، اختلافات اور الجھے معاملات حل ہوئے۔ آپ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے۔ لوگ آپ کے پاس اپنی حاجات لے کر آتے آپ ان کا ساتھ دیتے۔ ظالم کو جا کر سمجھاتے تو اکثر آپ کی صداقت اور شرافت کی وجہ سے ظلم رُک جاتا۔
مہر صاحب پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ ہزاروں افراد تک پیغام حق پہنچایا۔ مطالعہ وسیع تھا۔ باقاعدہ لائبریری بنائی ہوئی تھی جس میں حضرت مسیح موعودؑاور خلفاء احمدیت کی کتب کے علاوہ دیگر علماء کا پیدا کردہ لٹریچر اور جماعتی رسائل موجود تھے۔ غیراحمدیوں کا لٹریچر بھی آپ زیرمطالعہ رکھتے۔ جماعتی پروگراموں میں اپنے زیر اثر دوستوں کو ساتھ لے کر جاتے۔ بات میں تاثیر تھی گفتگو اس انداز سے کرتے کہ سیدھی دل میں اتر جاتی۔ اپنے کلام کو آیات قرآنی، احادیث نبویہؐ اور حضرت مسیح موعودؑ کے اشعار سے اس طرح سجاتے کہ سامع آپ سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا۔ ہر جگہ اپنا تعارف بطور احمدی کے کراتے اور اس تعارف کے ساتھ ہی مزید بات کرنے کا موقع بنالیتے۔ ایک دفعہ یوم تبلیغ کے سلسلہ میں سفر پر جارہے تھے۔ ویگن میں چند پڑھے لکھے مسافر بھی تھے۔ آپ نے جیب سے کاغذ نکالا اور مجھ سے قلم لے کر ایک مسافر سے پوچھا کہ ’’قدرت‘‘ قادیان والے ’’ق‘‘ سے لکھتے ہیں یا مکہ شریف والے ’’ک‘‘ سے۔ مخاطب صاحب علم تھے۔ اِن کے اس طرز کلام پر بڑے خوش ہوئے اور بات کا سلسلہ ہاتھ آگیا۔ آپ نے اُن سے اس انداز میں بات کی کہ مفصل پیغام پہنچا دیا اور یہ رابطہ مزید رابطوں کا باعث بھی بنا۔ آپ لٹریچر بھی جیب میں رکھتے اور مناسب ہاتھوں تک پہنچاتے رہتے۔ آپ کے لگائے ہوئے پودے آج بھی ثمر دے رہے ہیں۔
مہر صاحب اپنے اخلاص، دیانتداری، قابلیت اور تقویٰ کی بِنا پر ہمیشہ عہدیدار رہے، امیر صاحب ضلع کی عاملہ میں اہم ممبر تھے، ناظم انصاراللہ ضلع بھی رہے، ضلع کی سطح پر قاضی بھی رہے، اپنی ذہانت، زبان کی تاثیر اور معاملہ فہمی کے باعث معاملات کو آسانی سے سلجھا دیتے اور جانبین اپنے اذہان و قلوب میں کوئی تنگی بھی نہ پاتے۔ آپ کے ذاتی اوصاف کی وجہ سے ہر دو پارٹیاں آپ کی ذات کو اپنا ہمدرد، خیر خواہ اور محافظ یقین کرتیں اور اسی بِنا پر فریقین آپ کا فیصلہ دلی خوشی سے تسلیم کرلیاکرتے۔
1974ء کے حالات میں مخالفین نے آپ کا عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا، آپ کے پُرجوش مبلغ ہونے کی وجہ سے برادری نے بھی سخت مخالفت کی اور مکمل بائیکاٹ کردیا۔ معاندانہ کارروائیاں بہت بڑھ گئیں تو آپ نے بچوں کے حصول تعلیم اور پاکیزہ ماحول میں پرورش دینے کے لئے اپنا رقبہ فروخت کرکے ربوہ کے ماحول میں رقبہ ٹھیکہ پر لے کر کاشت کرلیا۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ملاقات کی اور بتایا کہ ’’باگڑ سرگانہ‘‘ سے زمین فروخت کرکے ربوہ کے جوار میں ٹھیکہ لے کر فصل کاشت کرلی ہے تو حضورؒ نے اس فیصلہ کو ناپسند فرمایا کہ ’’علاقہ کو خالی نہیں چھوڑنا تھا‘‘۔ اس پر آپ نے فوراً تعمیل کی۔ پہلے مالک رقبہ سے ٹھیکہ کی رقم واپس طلب کی۔ اُن کے انکار پر آپ کھڑی فصل چھوڑ کر اور ٹھیکہ کی رقم لئے بغیر واپس اپنے وطن باگڑسرگانہ آگئے اور کوشش کرکے اپنی فروخت شدہ زمین مہنگے داموں خرید کی اور حضورؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کے ارشاد پر تعمیل کرلی ہے اس پر حضور انور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
کچھ عرصہ خاکسار کو دفتر امارت ضلع خانیوال میں خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ مَیں امیر صاحب کا جب اور جس وقت کوئی پیغام لے کر حاضر ہوا تو مہر صاحب اُسی وقت بلاتاخیر کام کی تکمیل کے لئے چل پڑتے اور کوئی ضروری تیاری بھی نہ کرتے۔ کہا کرتے تھے کہ اصل اطاعت وہ ہوتی ہے کہ امیر دیکھ نہ بھی رہا ہو تو اس کا پیغام کان میں پڑتے ہی چل پڑو کیونکہ یہی خلیفہ، رسول اور خدا کی اطاعت ہے۔
پھر جہاں بھی آپ جاتے، پہلا فقرہ یہی کہتے کہ ہم امیر صاحب کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے آگئے ہیں۔ اس بات کا جماعت کے افراد پر بڑا اثر ہوتا اور وہ مقررہ کام میں بہت تعاون کرتے۔
مہر صاحب بنی نوع انسان کی خدمت میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ صاحب علم ہونے کی برکت سے علاقہ کے مظلوم افراد آپ کا سہارا لیتے۔ آپ درست مشورہ دیتے، مقدمات میں گھرے ہوئے غریب لوگ آپ سے اپنے مقدمات کے سلسلہ میں مدد چاہتے، توآپ ان کی ہر ممکن امداد کرتے، وکیل کرادیتے، علم دوست ہونے کی بِنا پر آپ کا حلقہ احباب تعلیم یافتہ طبقہ تھا۔ ڈاکٹرز، وکلاء اور دانشوروں کے ساتھ آپ کی مجالس ہوتی تھیں۔ اس لئے مقدمات میں جکڑے غریب لوگوں کوآپ سستا اور معقول وکیل کرادیتے اور گاہے بگاہے مقدمہ کا پتہ معلوم کرتے رہتے۔ جب فریق ثانی کو علم ہوتا کہ مہر صاحب نے فریق اول کا ساتھ دیا ہے تو اکثر وہ خود ہی آپ کے ہاں چلے آتے تو آپ دونوں کا تصفیہ کرا دیتے، اس طرح فریقین کے قیمتی وقت اور سرمایہ کی بچت ہو جاتی۔
مہر صاحب نے باگڑسرگانہ جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے پختہ مسجد تعمیر کی جس میں پانچ وقت باجماعت نمازوں کے علاوہ نماز جمعہ بھی ادا کی جاتی جس میں ملحقہ جماعتوں سے بھی احباب شامل ہوجایا کرتے۔ آپ کی دعاؤں اور دعوت الی اللہ سے آپ کے بھتیجے بھی جماعت میں شامل ہوگئے۔ برادری کو اس کا بہت صدمہ ہوا۔ ایک بار پھر مخالفت زور پکڑ گئی۔ برادری نے کافی زور لگایا کہ نومبائع واپس آجائے۔ برادری نے اپنے علماء بھی بلائے جو دلائل کے میدان میں عاجز آگئے تو برادری کو اس بات پر اُکساکر گئے کہ احمدیہ مسجد کو نقصان پہنچائیں۔ چنانچہ مخالفین نے مسجد مسمار کردی۔
28 جولائی 2004ء کی رات محترم مہر مختار احمد صاحب آف باگڑسرگانہ کی وفات ہوئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی ازراہ شفقت آپ کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں