مکرم منیر احمد شیخ صاحب امیر ضلع لاہور

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اگست 2010ء میں مکرم واحد اللہ جاوید صاحب کے قلم سے محترم منیر احمد شیخ صاحب شہید لاہور (امیر جماعت احمدیہ ضلع لاہور) کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
آج خدا کے فضل سے دنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو خدا کے وجود پر گواہ ہے کیونکہ نہ صرف مسلسل نشانات خداوندی نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ اہل ابصار کو آئینہ بھی دکھا رہی ہے۔ اس جماعت کا بچہ بچہ نہ صرف خود ایک نشان ہے بلکہ نشانات کا شاہد بھی ہے۔ 1984ء کی بات ہے خاکسار ابھی احمدیت کی آغوش سے باہر تھا۔ ایک 10 گیارہ سال کے بچے نے بڑی معصومیت اور عاجزانہ رنگ میں جیسے گزارش کی جاتی ہے کے رنگ میں مشورہ دیا۔ انکل آپ احمدی ہو جائیں۔ میں نے بھی اسی جیسا لہجہ اپنانے کی کوشش کی اور جواب میں کہا کہ بیٹا آپ احمدیت کو چھوڑ دیں۔ اس بچے نے جواب دیا کہ انکل میری چھوٹی سی عمر ہے اور اس میں مَیں احمدیت کی سچائی کے اس قدر نشانات دیکھ چکا ہوں کہ اب میرے بس میں نہیں رہا کہ احمدیت چھوڑ دوں۔ یہ پہلی چوٹ تھی جو اس بچے نے میرے دل پر ماری تھی۔
مکرم شیخ منیر احمد صاحب مرحوم 2009ء میں مسجد مبارک ربوہ میں معتکف ہوئے اور امیرالمعتکفین ہونے کی سعادت حاصل کی۔ خاکسار بھی خدا کے فضل سے معتکفین میں شامل تھا۔ اُن کی شخصیت کا نمایاں پہلو اُن کی تقسیمِ وقت کی عادت تھی۔
دوران اعتکاف خاکسار نے عرض کیا کہ رات کو اکثر معتکفین محراب میں نوافل ادا کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جہاں کئی خلفاء سجدہ ریز رہے ہیں۔ لیکن جب کوئی نوافل شروع کرتا ہے تو روحانی لذت میں دیگر احباب کو بھول جاتا ہے اس لئے اگر آپ احساس دلا دیں تو باقی احباب بھی مستفید ہو جایا کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے علم نہیں ہے کہ یہ میرے اختیارات میں ہے بھی کہ نہیں لہٰذا میں ایسا اعلان نہیں کر سکتا جب تک شرح صدر نہ ہو۔ مگر اگلے دن ہی گزارش کے رنگ میں اعلان فرمایا کہ روحانی مائدہ آپس میں بانٹ کر کھانا چاہئے اور پھر دس دس منٹ مقرر فرما دیئے کہ 2 نوافل کے لئے کافی ہوتے ہیں۔
دوسری ملاقات مسجد دارالذکر لاہور میں اس وقت ہوئی جب میں وقف جدید کے تربیتی دورے پر لاہور گیا۔ ان دنوں تعمیر کا کوئی منصوبہ زیر غور تھا۔ اس کا نقشہ منگوایا۔ یہ اتنے باتھ روم ہوں گے ان کا اتنا اتنا فاصلہ ہونا چاہئے تھا۔ واش بیسن کا دروازے سے اتنا فاصلہ چاہئے پانی کے چھینٹے اتنی دور تک جایا کرتے ہیں۔ رستہ خشک ہو وغیرہ وغیرہ۔ ایک ماہر آرکیٹیکٹ کی طرح نقشے پر مارکنگ کرنے لگے۔ یہ ملاقات جو صرف 10 منٹ پر محیط تھی آخری ثابت ہوئی۔ آخری وقت میں ان کی زبان پر وہ کلمات تھے جن کو فرشتے تو فرشتے اللہ تعالیٰ بھی ساتھ ہمنوا تھا یعنی درود شریف۔
جب جان جا رہی تھی تو زبان پر کلمہ شہادت اس بات کا غماز تھا کہ وہ شہادت کے اصل مفہوم سے شناسا تھے اور تقسیم وقت یہیں تک تھی۔ حضور انور نے ان کے ذکر خیر میں فرمایا کہ گھر سے رخصت ہو رہے تھے تو چندہ جات اور کیس کے متعلقہ رقوم بیگم صاحبہ کے حوالے کرکے آئے جو ان کی زندگی کے معمول کے خلاف تھا گویا ان کے علم میں تھا کہ وقت ختم ہورہا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں