مکرم محمد فخرالدین بھٹی صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم محمد فخرالدین بھٹی صاحب 1918ء میں گجرات کے ایک قصبہ جلالپور جٹاں میں پیدا ہوئے۔ ابھی چار پانچ سال کے تھے کہ والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ نے میٹرک کا امتحان دیا تو والد بھی فوت ہوگئے۔ آپ نے پہلے فوج میں اور پھر پولیس کے محکمہ میں ملازمت کی، بعد میں تجارت بھی کرتے رہے۔ آخر ضلع ہزارہ کے ایک قصبہ میں ملازمت شروع کردی اور باقی زندگی ایبٹ آباد میں ہی گزاری۔ جب1974ء میں احمدیوں کے خلاف ہنگامے شروع ہوئے تو آپ نے نہ صرف اپنے گھر والوں کو بلکہ دوسرے احمدیوں کو بھی بہت حوصلہ دیا۔
11؍ جون کو حالات بہت خراب تھے۔ آپ دفتر گئے تو کچھ دوستوں کے مجبور کرنے پر واپس گھر چلے گئے۔ اُس روز شہر میں اشتعال بہت زیادہ پھیلا ہوا تھا۔ آپ کے ایک بیٹے کے دوست جو فوج میں تھے، انہوں نے ایک ٹرک بھیجا کہ اپنا قیمتی سامان لے کر اُن کے ہاں آجائیں لیکن آپ نے انکار کردیا۔ بیوی نے چلنے پر اصرار کیا تو کہنے لگے کہ اگر تم گھبرا گئی ہو تو بچوں کو لے کر جہاں جانا چاہو چلی جاؤ، میں تو کہیں نہیں جاؤں گا۔ پھر آپ نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کے واقعات بیان کیے کہ انہوں نے پتھروں کی بارش میں بھی مسکراتے ہوئے جان دے دی اور دشمن کے سامنے سر نہ جھکایا۔
آپ کی بیٹی مکرمہ روبینہ خلیل صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ شام ساڑے چار بجے ایک بہت بڑا جلوس گھر پر حملہ آور ہوا اور گیٹ توڑ کر اندر آگیا پھر اندرونی دروازہ توڑنے کی کوشش شروع کی تو شہید مرحوم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دروازے کو اندر سے سہارا دیے کھڑے رہے۔ جب آدھا دروازہ ٹوٹ گیا تو آپ نے مجبوراً ہوائی فائرنگ کی جس سے جلوس بھاگا اور باہر نکل کر چاروں طرف سے گھر پر شدید پتھراؤ شروع کردیا۔ جب کھڑکیوں اور روشندانوں کے شیشے ٹوٹ گئے تو اہل خانہ نے صحن کے درخت کے ذریعے ہمسایوں کے گھر میں چھلانگ لگادی۔ اس پر جلوس نے بہت شور مچایا اور ایک لڑکا حملہ کرنے کے لیے چھت پر چڑھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرسکتا، شہید مرحوم نے اُسے گولی مار دی اور اُس کی لاش جلوس کی طرف پھینک دی۔ اس کے بعد کسی اَور کو چھت پر چڑھنے کی جرأت نہ ہوئی لیکن اب ہمسایہ کے گھر پر بھی پتھراؤ شروع ہوگیا اور شہید مرحوم اکیلے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے رہ گئے۔
بیوی بچے ہمسایوں کے ایک غسل خانے میں بند ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہمسایہ نے اپنے گھر کی عورتوں اور بچوں کو جیپ میں باہر بھجوادیا اور بعد میں دشمن کو کہہ دیا کہ فخرالدین کے بیوی بچے بھی اُنہی کے ساتھ نکل گئے ہیں۔ مشتعل ہجوم فخرالدین بھٹی صاحب کے گھر پر دوبارہ حملہ آور ہوا تو شہید مرحوم کے پاس گو پستول تو تھا لیکن گولیاں ختم ہوگئی تھیں تب بپھرا ہوا ہجوم آپ پر ٹوٹ پڑا۔ آپ کے گھر کو آگ لگادی گئی اور آپ کو آگ میں پھینکا گیا لیکن آپ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ جب بے بس ہوگئے تو ہجوم آپ کو مارتا ہوا میدان میں لے گیا۔ آپ کلمہ شہادت پڑھتے تو دشمن کہتا کہ اب تُو موت کے ڈر سے مسلمان ہو رہا ہے لیکن ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے۔ آپ جواب دیتے کہ میں موت سے نہیں ڈرتا، تم نے جو کرنا ہے کرو، میں خدا کے فضل سے پکّا مسلمان ہوں۔ کچھ لوگوں نے جب آپ کو بچانے کی کوشش کی تو اُنہیں بھی پتھر مارے گئے۔ اس پر آپ نے ہاتھ کے اشارے سے اُن لوگوں کو چلے جانے کو کہا۔ ظالم پتھروں، چاقوؤں اور ڈنڈوں سے آپ پر وار کرتے رہے اور اسی طرح یہ بے خوف مجاہد کلمہ پڑھتے پڑھتے شہید ہوگیا۔ جب آپ پر پتھر برسائے جا رہے تھے تو آپ نے ایک دفعہ بھی اپنے چہرے کو ہاتھوں سے بچانے کی کوشش نہ کی۔ دشمن حیران تھا کہ اس شخص نے اتنی چوٹیں کھانے کے باوجود بھی ’’اُف‘‘ تک نہ کی۔ بعد میں یہی کہتے پھرتے تھے کہ یہ شخص لاکھوں میں ایک تھا، بہت ایماندار، مخلص اور خوبیوں والا تھا، بس ایک ہی کمی تھی کہ یہ مرزائی تھا۔
پھر ظالموں نے آپ کی لاش کو چوک میں پھانسی دینے کا پروگرام بنایا۔ تب ایک شدید مخالف نے ہی اس حرکت سے منع کیا۔ اتنے میں پولیس آپ کی لاش لے گئی اور شہید مرحوم کو راولپنڈی لے جاکر سپردخاک کردیا گیا۔
شہید کا ایک وفادار کتا تھا جو پہلے ان کی لاش کے گرد گھومتا رہا اور تین دن بھوکے رہنے کے بعد اُس نے بھی صدمے سے جان دے دی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں