مکرم محمد احمد صدیقی صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍ستمبر 2012ء میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق 15 و 16؍ستمبر 2012ء کی درمیانی رات مکرم محمد احمد صدیقی صاحب آف گلستانِ جوہر کراچی کو نامعلوم افراد نے شدید فائرنگ کرکے اُس وقت موقع پر ہی شہید کردیا جب وہ اپنے برادرنسبتی مکرم ملک شمس فخری صاحب کے ہمراہ اپنے ڈیپارٹمنٹل سٹور ’’السلام سپر سٹور‘‘ واقع گلستان جوہر سے موٹر سائیکل پر اپنے گھر جانے کے لئے نکلے۔ 45 سالہ فخری صاحب شدید زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ انہیں پانچ گولیاں لگیں۔ جبکہ مکرم محمد احمد صدیقی صاحب کو دو گولیاں لگیں جن میں سے ایک دل پر اور دوسری کُولہے پر لگی۔
مکرم محمد احمد صدیقی صاحب ابن مکرم ریاض احمد صاحب صدیقی کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے بھائی مکرم عمران صدیقی صاحب کی بیعت سے ہوا جو 2001ء میں امریکہ میں بیعت کرکے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد عمران صدیقی صاحب کی تبلیغ سے آپ کے دیگر دو بھائیوں عمیر صدیقی صاحب اور رضوان صدیقی صاحب نے بھی بیعت کرلی۔ اس کے بعد بشمول والدین کے پورا خاندان بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ نے 21؍ستمبر 2012ء کو خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا مختصر ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر 23سال تھی اور صرف ایک ہفتہ قبل اُن کا نکاح ہوا تھا۔ شہید مرحوم نے گزشتہ سال ہی ایم بی اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ بہت شریف النفس، معصوم،اطاعت گزار اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک تھے۔ کہتے ہیں کہ تیئس سال کا نوجوان نہ صرف خوبصورت شکل و صورت کا مالک تھا بلکہ خوب سیرت بھی تھا۔ ہر وقت چند دعائیں اپنے پاس لکھ کر رکھا کرتے تھے اور اُنہیں پڑھتے رہتے تھے۔ اُن کے بھائی نے کہا کہ ہم میں سے سب سے قابل تھا۔ 7؍ستمبر 2012ء کو اس نے اپنے بعض دوستوں کو موبائل پر SMS کیا کہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں، اگر مَیں شہید ہو جاؤں تو میرے لئے دعا کرنا۔
شہید مرحوم کی والدہ نے اس تکلیف دہ واقعہ کے وقت بتایا کہ تعزیت کے لئے آنے والی غیر احمدی رشتہ دار خواتین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ نے انجام دیکھ لیا۔ اس پر شہید مرحوم کی والدہ نے اُنہیں جواباً کہا کہ ہم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسیح کو مانا ہے، ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ میں جماعت کی خاطر اپنے نو (9)کے نو (9) بیٹوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اللہ کے فضل سے شہید کے بھائی بہن سب حوصلے میں ہیں۔ شہید مرحوم کے والد صاحب پہلے ہی وفات پا چکے ہیں۔ شہید مرحوم نے لواحقین میں بوڑھی والدہ محترمہ کے علاوہ آٹھ بھائی اور دو بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں