مکرم عمر ورجیلیوکروالیو صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جولائی 2007ء میں افریقی ملک ’’ساؤتومے پرنسیپ‘‘ کی آزادی کے ہیرو اور اولین احمدی مکرم عمر ور جیلیو کر والیو صاحب (Umer Virgilho Carvalho) کا ذکرخیر مکرم رشید احمد طیب صاحب مربی سلسلہ کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم عمر ور جیلیو کر والیو صاحب صدر جماعت احمدیہ ساؤتومے پرنسیپ دسمبر 2006ء کے آخری عشرہ میں بوجہ ہارٹ اٹیک وفات پاگئے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے قانون دان اور سیاسی لحاظ سے ملک کے ایک نہایت باوقار مخلص سیاسی کارکن تھے جو ملک کی پرتگالی تسلط سے آزادی کی جدو جہد میں صف اوّل کے ہیروز میں شامل تھے۔ اور تا وقت مرگ مختلف اعلیٰ حیثیتوں سے اپنے ملک کی خدمت میں مصروف رہے۔ 1971ء میں طویل جدوجہد آزادی کے کامیاب اختتام پر پرتگیزی حکومت کے ساتھ آزادی کے معاہدہ پر جن تین اراکین کی کمیٹی نے ساؤتومے پرنسیپ کی نمائندگی میں دستخط کئے، اُن میں آپ بھی شامل تھے۔نئے ملک کا Logo آپ نے ڈیزائن کیا جو تمام کرنسی نوٹوں، سرکاری دستاویزات اور عمارات پر نظر آتا ہے۔ اس میں ملک کی سب سے بڑی زرعی پیداوار کوکونٹ کے دونوں طرف یہاں کے دو قومی پرندوں طوطے اور شاہین کو دکھایا گیا ہے۔ آزادی کے بعد آپ کو ہمسایہ ملک ’’گابون‘‘ کے لئے پہلا سفیر مقرر کیا گیا اور آپ یہاں آٹھ سال تک مصروف خدمت رہے اور آپ کے یہاں قیام کے دوران آپ کی پیشہ ورانہ دیانتداری اور خلوص نیت کی اب تک لوگ تعریف کرتے ہیں۔ آپ نے کئی سال تک صدر مملکت کے پروٹوکول آفیسر اور مشیر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔
مکرم عمر ورجیلیو کروالیو صاحب کا شمار 1960-61ء میں ملک کے نامور فٹ بال کھلاڑیوں میں ہوتا تھا اور وہ اپنے ملک کے پہلے کھلاڑی تھے جس کا معاہدہ پرتگال کے ایک مشہور کلب کے ساتھ ہوا اور چند سال یہ وہاں کھیلے لیکن پھر خرابی صحت کی وجہ سے واپس آنا پڑا۔
ساؤتومے میں 2001ء میں جماعت بینن کی کاوشوں سے احمدیت کا پودا اُس وقت لگا جب مکرم حافظ احسان سکندر صاحب (سابق امیر بینن) سے آپ کی ملاقات ایک ہوٹل میں ہوئی۔ اُس وقت مکرم حافظ صاحب کا چند مقامی لوگوں سے رابطہ ہو چکا تھا اور ملک میں موجود قلیل تعداد میں قائم ایک طبقہ سخت مزاحمت کر رہا تھا تاکہ جماعت احمدیہ اس ملک میں اپنے قدم نہ جماسکے۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے مکرم عمر ورجیلیو کر والیو صاحب جیسا شخص اپنے دین کو عطا کیا جنہیں پہلے تعارف اور ابتدائی مطالعہ میں ہی حق کی آواز متاثر کرگئی۔ چنانچہ ایک دو دن بعد ہی انہوں نے اپنی اہلیہ مکرمہ Elisa صاحبہ کے ہمراہ بیعت کرلی۔ بیعت کے بعد آپ کے نام کے ساتھ ’’عمر‘‘ کا اضافہ کیا گیا اور بیگم صاحبہ کا نام عائشہ رکھا گیا۔
قبول احمدیت کے بعد مکرم عمر ورجیلیو صاحب نے ساؤتومے میں جماعت احمدیہ کی رجسٹریشن کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔جس کے بعد خاکسار کا تقرر یہاں کے لئے بطور مربی سلسلہ ہوا۔ مئی 2002ء میں جب خاکسار گابون پہنچا تاکہ ساؤتومے کے لئے ویزا حاصل کرے تو چند ماہ قبل 9/11کا واقعہ رونما ہونے کے بعد بہت سے ممالک کی طرح ساؤتومے حکومت نے بھی پاکستانی قومیت کے حامل افراد کو ویزا دینے کے معاملہ پر سوالیہ نشان لگا دیا تھا۔سخت پریشانی میں مکرم عمر ورجیلیو کروالیو صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور دستاویزات بھیجی گئیں تو محض ایک دن میں ہی انہوں نے وزارت خارجہ سے داخلہ کا اجازت نامہ حاصل کرکے ہمیں گابون بذریعہ فیکس بھجوادیا۔ پھر ساؤتومے میں مشن ہاؤس کے لئے مکان کی تلاش، ویزا وغیرہ نیز دیگر سرکاری امور پر نہایت بے لوث تعاون کیا۔ آپ ہر جماعتی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہتے۔
60 سال سے زائد عمر اور گھٹنوں میں درد کی تکلیف کے باوجود بڑے خلوص اور جذبہ سے نماز اور بنیادی مسائل سیکھے۔
خاکسار کو ساؤتومے میں قیام کے دوران ملک کی اہم شخصیات سے روابط و ملاقاتوں میں ہمیشہ ان کی رفاقت حاصل رہی۔ ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے حتیٰ کہ وزراء اور وزیر اعظم تک نے بہت عزت و تکریم سے ان کا استقبال کیا اور بڑی حیرت سے آپ سے احمدیت قبول کرنے کی وجہ پوچھتے۔ 2002ء میں جماعت احمدیہ بینن کے جلسہ سالانہ میں آپ کو جماعت احمدیہ ساؤتومے کی نمائندگی میں شمولیت کی توفیق ملی۔ اُس سال آٹھ ممالک سے تیس ہزار سے زائد افراد شامل ہوئے۔ مرکز سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒکی نمائندگی میں مکرم عبدالغنی جہانگیر خان صاحب تشریف لائے تھے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے دورِ خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ برطانیہ میں بھی آپ کو شرکت کی توفیق ملی اور حضورانور کی طرف سے عطا شدہ الیس اللہ والی انگوٹھی تادم مرگ زینت انگشت رہی۔ جلسہ برطانیہ کے دوران ہی آپ پر دل کا حملہ ہوا اور چند دن تک انتہائی نگہداشت میں رہے۔ اس دوران حضور انور کی خصوصی شفقت اور دعاؤں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے شفاء عطا فرمائی۔ واپس آکر پیارے امام کی شفقتوں کا بہت پیار سے ذکر کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات سے جماعت احمدیہ ساؤتومے ایک مخلص اور فدائی رکن اور رہنما سے محروم ہوگئی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں