مکرم سید مولود احمد بخاری شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ کے مختلف شماروں میں چند شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم سید مولود احمد بخاری شہید ولد سید محمود احمد صاحب اپنے والدین کے ساتھ کوئٹہ کے نواحی گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔ صبح کے وقت سکول میں ملازمت کرتے اور شام کے وقت بی اے کی تیاری کرتے۔ 8؍جون 1974ء کو مفتی محمود نے ان کے گھر کے قریب کی مسجد میں اشتعال انگیز تقریر کی۔ اُسی رات ڈیڑھ بجے چند افراد صحن کی دیوار پھلانگ کر اندر آئے تو مولود شہید کی آنکھ کھل گئی اور اس کی چیخ و پکار کی آواز سے گھر والے بھی جاگ اٹھے۔ اس پر تین افراد گھر سے نکل کر بھاگے۔ اس نے چور سمجھ کر پیچھا کرنا چاہا تو سڑک پر پہلے سے موجود شرپسندوں نے خنجروں سے وار کرکے مولود کو شدید زخمی کردیا۔ شہید کے بڑے بھائی ڈاکٹر سید مقصود احمد صاحب اور گیارہ سالہ بھائی سید مظفر احمد صاحب بھی خنجروں کے وار سے زخمی ہوگئے۔ جب ان کے والد اور ان کی بہن بھی موقع پر پہنچے تو مولود زخموں کی تاب نہ لاکر گر رہا تھا۔ ان دونوں نے اسے سنبھال لیا اور زخمیوں کو اٹھاکر گھر لے گئے۔
شہید مرحوم کو اکیس زخم آئے جو دل اور بغل میں تھے۔ گھاؤ بہت گہرے تھے، دہان زخم کھلے تھے اور نیچے دل نظر آرہا تھا۔ 9؍جون 1974ء کو اٹھارہ سال کی عمر میں ان کی شہادت ہوئی۔باقی دونوں زخمیوں کے آپریشن ہوئے۔ ڈاکٹر مقصود کو دو اور سید مظفر احمد کو چودہ بوتلیں خون دیا گیا۔
شہید مرحوم کو پولیس کی ہدایت پر مسجد احمدیہ کوئٹہ میں دفن کیا گیا۔ آپ غیرشادی شدہ تھے۔ آپ کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔
آپ پر حملہ کرنے والوں کی تعداد سات تھی۔ کچھ عرصہ بعد ان حملہ آوروں میں سے دو کا کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ انہوں نے خنجروں سے ایک دوسرے پر وار کیے اور سڑک پر گر گئے۔ پولیس نے آکر جب ان کو اٹھایا تو ایک کی گردن کا کچھ حصہ جسم سے جڑا ہوا تھا اور باقی سر لٹک رہا تھا۔ دوسرا ہسپتال لے جاتے ہوئے مر گیا۔ سڑک پر موجود لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ ایک اور شخص جو مولود شہید پر حملے کے دوران اندھیرے کے باعث اپنے ساتھیوں ہی کے خنجروں سے زخمی ہوگیا تھا، اُس کا خفیہ طور پر علاج کیا گیا لیکن اس کے زخم خراب ہوگئے اور وہ اسی حالت میں مر گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں