مکرم سلطان عالم صاحب شہید

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2011ء میں مکرم بشارت احمد صاحب کے قلم سے درج ذیل شہدائے احمدیت کا تذکرہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے خطباتِ جمعہ کے حوالے سے شائع ہوا ہے۔
مکرم سلطان عالم صاحب 26؍نومبر 1922ء کو پیدا ہوئے۔ 1938ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے درجہ اول میں میٹرک پاس کیا۔اس عرصہ میں تحریک جدید بورڈنگ ہائوس میں داخل رہے۔ اس چھوٹی سی عمر میں ہی باقاعدہ تہجد گزار تھے۔ بعدازاں گجرات سے امتیاز کے ساتھ ایف اے پاس کیا اور CMA کے مقابلہ کے امتحان میںکامیاب ہو کر ملازم ہو گئے۔ 1942ء میں وصیت کی پھر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے حکم پراپنی جائیداد وقف کر دی۔ جون 1947ء میں آ پ کو مہمان خانے میں معاون ناظرضیافت کے طور پر تعینات کیا گیا۔ یہ چونکہ وقف کر کے آگئے تھے اس لیے معاون ناظر ضیافت کے طور پر اپنی ذمہ داری بڑی جانفشانی سے ادا کی۔19؍ستمبر 1947ء کو مرحوم نے اپنے گھر پر خط میں لکھا: ’’حضور کا حکم ہے کہ عورتوں اور بچوں کو بھیج دو اور خو ب ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ ہم تو حضور کے حکم کے مطابق خون کا آخری قطرہ بہانے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں۔‘‘
4؍اکتوبر 1947ء کو کرفیو اٹھنے کے بعد جب بیرونی محلوں میں رہنے والے بعض احمدی اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لیے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پرجو ریتی چھلہ سے ملتاہے عین دن دہاڑے برسربازار سات احمدیوں کوگولی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں میاں سلطان عالم صاحب بھی تھے اورجب بعض لوگ شہید احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھے تو ان کوبھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ بعد میں ان شہداء کو نور ہسپتال کے قریب گڑھے میں دفن کردیا گیا۔ بعد میں وہاں کتبہ بھی نصب کردیا گیا۔ شہید کے پسماندگان میں بوڑھے والدین، بیوہ اور دو بیٹے شامل تھے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے اس ضمن میں مزید فرمایا کہ شہید کے مزید تعارف کے طورپر مَیں بیان کر رہا ہوں کہ یہ مکرم پیرعالم صاحب واقف زندگی کے حقیقی بھائی تھے۔ پیرعالم صاحب میرے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ہمہ وقت خدمت کے لیے تیار رہتے ہیں۔ رات بارہ بجے یا ایک بجے تک ہماری بعض علمی مجالس رہی ہیں بعض دفعہ دو بجے تک، سب لوگ چھٹی کر جاتے تھے مگر پیر صاحب نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ صبح ہمارے مختلف کارکنوں کے آنے سے پہلے میں اپنے دفتر پہنچ جاتاہوں اورکبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں پہنچا ہوں اور پیر صاحب موجود نہ ہوں۔ اللہ کے فضل سے اِن کا بھائی تو شہادت کا رتبہ پا گیا لیکن پیر صاحب نے بھی جیتے جی وقف کا حق ادا کرکے اللہ کے حضور یقینا ًبہت رتبے پائے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں