مکرم حکیم محمد یار صاحب سدھو

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اگست 2007ء میں مکرم افتخار احمد انور صاحب نے اپنے والد محترم حکیم محمد یار صاحب سدھو آف جل بھٹیاں کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم حکیم محمد یار صاحب 1937 ء میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی آپ کے والد محترم میاں احمد یار صاحب کا انتقال ہوگیا۔ آپ چار بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ نامساعد حالات کے باوجود آپ نے مڈل تک تعلیم حاصل کی اور پھر گاؤں کے ایک ہندو حکیم کی دکان میں بھی جانا شروع کردیا۔ پھر حکمت کا شوق آپ کو قریبی شہر کے ایک نامور فاضل حکیم کے پاس لے گیا جن سے باقاعدہ حکمت سیکھی اور پھر یہی پیشہ اپنالیا۔ خدمت خلق کا ایسا شوق تھا کہ موسم کی شدّت، نیز اپنے اور گھروالوں کے آرام کی بھی پرواہ نہ کی۔
1953ء میں جماعت کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے والوں میں آپ بھی شامل تھے۔ لیکن چونکہ سعید فطرت تھے اس لئے تحقیق بھی شروع کردی اور اپنے علاقہ کے چند معززین کے ہمراہ ایک پیر صاحب (پیر منور دین آف چک منگلا) کے پاس گئے۔ آپ نے پوچھا کہ ہمیں بتائیں کیا مرزا صاحب سچے ہیں؟ تو انہوں جواب دیا ہاں وہ سچے ہیں، آپ ان کی بیعت کرلیں۔ چنانچہ آپ اپنے عزیزوں اور گاؤں کے قریباً 80 افراد کے ہمراہ ربوہ حاضر ہوئے اور حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر بیعت کی توفیق پائی۔ آپ لمبا عرصہ قائد مجلس خدام الاحمدیہ جل بھٹیاں، صدر جماعت اور دیگر عہدوں پر متعین رہے۔ بہت مہمان نواز تھے۔ جماعتی وفود کی بھی خدمت کرتے اور جو معلمین تعینات ہوتے ان کے طعام کا خاص اہتمام فرماتے۔ جب بھی کوئی شخص ملنے آتا تو پہلے اس کی چائے سے تواضع کرتے اور پھر معلوم کرتے کہ وہ کس مقصد سے آیا ہے۔ عاجزی اور انکساری کا پیکر تھے۔ حکمت کا کام آپ نے سندھ میں بھی شروع کیا اور علاقہ کے اہم لوگوں سے قریبی تعلقات بھی ہوگئے۔ لیکن پھر ایک خواب کی بناء پر سندھ سے پنجاب واپس آگئے۔ بعد میں سندھ کے اُس علاقہ میں ایک طوفان نے تَباہی مچادی۔
آپ بچپن سے ہی پنجوقتہ نمازوں کے پابند اور تہجد گزار تھے۔ تہجد میں گریہ و زاری معمول تھا۔ سب عزیزوں کو لے کرجلسہ سالانہ ربوہ میں شامل ہوتے۔ خاندانی مسائل کے حل کے لئے رشتہ داروں کی نظر آپ کی طرف اٹھتی تھی۔ غیروں کے ساتھ بھی بہت محبت کا سلوک تھا۔ چنانچہ آپ کے جنازہ میں کئی غیر از جماعت دوست بھی شامل ہوئے جو آپ کی پارسائی اور نیک فطرتی کا ذکر کرتے رہے۔ توکّل کا معیار بہت اعلیٰ تھا۔ ایک بار کسی زمیندار نے پوچھا کہ آپ اپنے اخراجات کیسے پورے کرلیتے ہیں، آپ نے اُسے بتایا کہ جب بھی ضرورت ہوتی ہے میں خدا کے حضور دعا کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم آتا ہے، اے میرے بندے تو اپنے تھیلے میں ہاتھ ڈال، اس میں سے تمہاری ضروریات پوری ہوجائیں گی۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹے عطا فرمائے۔ آپ نے مشکلات کے باوجود اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلوانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور شہر میں اخراجات کرکے انہیں پڑھایا۔ اولاد کی تربیت بھی بہت عمدہ کی۔ سب دنیاوی طور پر بھی عمدہ زندگی گزار رہے ہیں اور دینی خدمت بھی بجا لارہے ہیں۔ ایک بیٹے مکرم جاوید ناصر ساقی صاحب مربی سلسلہ دارالضیافت ہیں۔ جبکہ دو بیٹے دیگر جماعتی اداروں کے کارکن ہیں۔ ایک پوتا جامعہ احمدیہ ربوہ کا طالبعلم ہے۔
آپ نے 26 مارچ 2007ء کو وفات پائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی آنکھوں کا عطیہ نُور ڈونرز ایسوسی ایشن کو دیا گیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں