مکرم اعجازالحق صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10 دسمبر 2011ء میں مکرمہ م۔غفار صاحبہ نے سانحہ لاہور میں شہید ہونے والے اپنے بھائی مکرم اعجازالحق صاحب کا ذکر خیر کیا ہے۔
مکرم اعجازالحق صاحب شہید ایک صحافی تھے اور الیکٹرانک نیوز چینل سٹی 42 میں کام کرتے تھے۔ جب دارالذکر پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تو سب سے پہلے اسی چینل کے ذریعے میڈیا تک یہ خبر پہنچی اور اعجازالحق صاحب لائیو ریکارڈنگ کرواتے ہوئے ہی زخمی ہوگئے اور ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں جام شہادت نوش کر گئے۔
شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت منشی محمد دین صاحب آف امرتسر نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کی تھی۔ اُن کے چار بیٹوں میں سے بڑے مکرم حکیم فضل حق صاحب تھے جن کے بڑے بیٹے رحمت حق صاحب تھے جو شہید مرحوم کے والد تھے۔ شہید مرحوم اپنے پانچ بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے جبکہ ایک بہن (مضمون نگار) بھی ہیں ۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ 28مئی 2010ء کی صبح ہماری ایک پھوپھی اچانک صبح کے وقت ہمارے گھر آکر کہنے لگیں کہ رات انہوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض مرحوم افراد نے آکر انہیں کہا کہ تیار ہو جاؤ ہم تمہیں لینے آئے ہیں ۔ چنانچہ وہ اپنی دانست میں زندگی میں آخری بار اپنے عزیزوں سے ملنے آگئیں ۔ میرے گھر سے وہ اعجازالحق کے گھر چلی گئیں ۔ اس کو پیار کیا۔ وہ کہنے لگا کہ میری ڈیوٹی کاوقت ہو رہا ہے لہٰذا رات کو ملاقات ہو گی۔ لیکن اُسی دوپہر دارالذکر پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تو اعجازالحق وہاں تھا۔ اپنے چینل کے لئے براہ راست (Live) ریکارڈنگ کرتے ہوئے پہلے وہ مینار پر موجود دہشتگرد کی فائرنگ سے شدید زخمی ہوا۔ لیکن زخمی حالت میں بھی کوریج جاری رکھی۔ زخمی حالت میں اُس کی آوازیں بھی ریکارڈ اورنشر ہوتی رہیں ۔ اسی اثناء میں ایک دہشتگرد نے سیدھا برسٹ مارا جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہو گیا۔ بعد میں چینل والوں نے اس کی مکمل تصویر کے ساتھ Live ریکارڈنگ کی فلم 10دن تک صبح و شام نشر کی اور ساتھ تعریفی اور بہادری کے کلمات بھی نشر ہوتے رہے۔
مکرم اعجاز الحق صاحب شہید جمعہ کی نماز کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ اپنی ڈیوٹی سے چھٹی لے کر قریبی احمدیہ مسجد پہنچ جاتے۔ نماز فجر پہ اپنے بچوں کو بھی ہمراہ لے جاتے۔ غیرمعمولی مزاح کی طبیعت پائی تھی اور اپنے خاندان اور دفتر کے سٹاف میں ہردلعزیز تھے۔ بہادری اور جرأت اُن کو ورثے میں ملی تھی۔ کمزوروں اور غریبوں کی مدد کرنا اُن کا شیوہ تھا۔ بچپن سے ہی خدمت خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ جماعتی ڈیوٹیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ تلاوت اور قراءت بہت اچھی تھی۔قرآن پاک کے کچھ پارے حفظ بھی کر رکھے تھے ۔ اُن کی شہادت کے وقت پتہ چلا کہ انہوں نے محلہ کے بہت سے غریب لوگوں کی ماہانہ مدد جاری کر رکھی تھی۔ باوجود اپنی کم آمدن کے وہ مستحقین اور غرباکی مدد کرتے تھے ۔ محلہ کی ایک عورت نے بتایا کہ اُس نے سود پر قرضہ لیا ہوا تھا۔ اعجازالحق شہید نے اپنی تنخواہ سے بڑی رقم یکمشت ادا کرکے مجھے اس سودی قرضہ سے نجات دلائی تھی۔ شہید مرحوم الیکٹرانک چیزوں کی مرمّت کرلیتے تھے اور اُن کی خدمت خلق کا یہ بھی ایک طریق تھا کہ غرباء کی چیزیں بلامعاوضہ ٹھیک کردیتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں