موٹاپے کے مسائل – جدید تحقیق کی روشنی میں

موٹاپے کا خوف اور نقصانات – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

اس دور میں وزن کی زیادتی نے کئی جسمانی اور نفسیاتی مسائل کو جنم دیا ہے- اور اسی نسبت سے وزن میں کمی کے لئے سینکڑوں ریاضتیں اور علاج کئے جارہے ہیں- دراصل یہ ایک ایسا بزنس بن چکا ہے جس سے تاجر خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں- چنانچہ اٹلی کے سائنسدانوں نے ایک ایسی گولی تیار کی ہے جو معدے میں پہنچ کر اپنے سائز میں بڑھ جاتی ہے اور اس طرح کھانا کھانے والے کو بھرے ہوئے پیٹ کا احساس ہونے لگتا ہے اور چند گھنٹوں تک بھوک روکی جاسکتی ہے اور اس طرح موٹاپے پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ گولی اُسی قدر اثرات کی حامل ہے جس قدر کہ گیسٹرک بائنڈنگ جس میں سرجری کے ذریعے پیٹ کو اندرونی طور پر باندھ دیا جاتا ہے۔ ہائیڈروجل سے تیار کی جانے والی یہ گولی اُس وقت بنائی گئی تھی جب سائنسدان زیادہ مواد جذب کرنے والا نیپی تیار کر رہے تھے۔ سیلولوز کے سفوف پر مشتمل یہ گولی اگر پانی کے ساتھ کھائی جائے تو پیٹ میں جیلی کی طرح پھول جاتی ہے اور بعد میں باآسانی ہضم ہوسکتی ہے۔ اس گولی کو اب تک صرف بیس افراد پر آزمایا گیا ہے جبکہ اس کے حفاظتی اثرات کا بھرپور جائزہ لینے کے لئے وسیع پیمانے پر اس کو استعمال کیا جانا ابھی باقی ہے۔ ابھی مزید نوّے رضاکاروں پر اس کا استعمال کیا جارہا ہے تاکہ بداثرات سامنے آسکیں۔ فی الحال اس دوا کو کوئی نام نہیں دیا گیا۔
اسی طرح آسٹریلیا میں ہونے والی ایک جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی خوراک پر قابو نہیں پاسکتے، اُن کے لئے ایک نیا سائنسی طریق دریافت کرلیا گیا ہے۔ میلبورن کے محققین کی ایک ٹیم نے معلوم کیا ہے کہ چوہوں میں چکنائی کے خلیات میں کچھ تبدیلی کے نتیجے میں دیکھا گیا ہے کہ چوہوں میں میٹابولزم کا عمل یعنی جسم میں داخل کی جانے والی خوراک کو توانائی میں تبدیل کرنے کا عمل زیادہ تیز ہوگیا ہے۔ سائنسدانوں نے دیکھا ہے کہ جب چوہوں کو ایک خاص اینزائم ACE یعنی Angiotensin Converting Enzyme سے محروم کیا گیا تو وہ چوہے، دیگر چوہوں کی طرح خوراک کھانے کے باوجود موٹے نہیں ہوئے بلکہ زیادہ کیلوریز کے استعمال کے نتیجے میں اُن کا وزن دوسرے چوہوں کے مقابلے میں بہت کم بڑھا۔ چنانچہ اس اینزائم سے محروم چوہوں کا وزن دوسرے چوہوں کی نسبت نہ صرف بیس فیصد کم تھا بلکہ اُن کے جسم میں دوسرے چوہوں کی نسبت 50 سے 60 فیصد تک چربی بھی کم جمع ہوئی تھی۔ یہ تحقیق Howard Florey Institute میں کی گئی ہے اور محققین کی ٹیم کے سربراہ مائیکل متھائی وکٹوریہ یونیورسٹی میں خوراک کے شعبے میں بھی کام کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس تجربے کے نتیجے میں جو چوہے وزن میں اور چربی جمع کرنے میں کم تھے، اُن میں ذیابیطس اور بعض دیگر بیماریوں کے امکانات بھی کم تھے کیونکہ انہوں نے اپنی خوراک میں موجود شکر کو دوسرے چوہوں کی نسبت بہت جلد استعمال کرلیا تھا۔
لیکن موٹاپا اور اس کے نقصانات اب صرف انسان تک ہی محدود نہیں- بلکہ سکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں ذیابیطس میں مبتلا بلیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک بھر میں ہر 230پالتو بلیوں میں سے ایک ذیابیطس کے مرض کا شکار ہے۔ محققین نے بلیوں کے مالکان سے کہا ہے کہ وہ اپنی پالتو بلیوں کے وزن کا خیال رکھیں کیونکہ موٹی بلیوں کے اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
ایڈنبرا یونیورسٹی کے سکول آف ویٹرنری سائنسز کی پروفیسر ڈینیئل کا کہنا ہے کہ برطانوی بلیوں میں ذیابیطس کی شرح معلوم کرنے کے لئے یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے اور اس کے نتائج خاصے فکرانگیز ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پالتو بلیوں کے مالکان کو چاہئے کہ اپنی بلیوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لئے اُنہیں چاق و چوبند رکھیں اور اُن کا وزن بڑھنے نہ دیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں بلیوں کا طرز زندگی اُن کے مالکان کی طرح بدل رہا ہے اور بدقسمتی سے لوگوں کی طرح اگر بلیوں کو بھی اُن کی مرغوب غذا زیادہ مقدار میں کھلائی جائے گی اور خصوصاً ایسے حالات میں جبکہ بلیاں بور ہوں اور اُن کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ ذیابیطس کی بیماری تیزی سے بلیوں میں پھیلے گی۔
اس تحقیق کے دوران برطانیہ میں چودہ ہزار بلیوں کا معائنہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ ذیابیطس کا شکار بلیوں میں سے 85 سے 95فیصد بلیاں ٹائپ ٹو ذیابیطس کا شکار ہیں جس کا براہ راست تعلق موٹاپے سے ہے۔
انسانوں میں بھی موٹاپے کے نتیجے میں کئی بیماریاں حملہ کرتی ہیں- جرنل آف دی امیریکن اکیڈمی آف نیورولوجی نے قریباً تیس سال میں ساڑھے چھ ہزار افراد پر کی جانے والی اپنی ایک تحقیق گزشتہ دنوں شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ موٹاپے کے شکار افراد میں بڑھاپے میں مخبوط الحواسی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بڑھے ہوئے پیٹ والے افراد میں دل کی بیماریوں اور ذیابیطس کے علاوہ دماغ کے خلل کا شکار ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق میں حصہ لینے والے افراد کو تین گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں نارمل جسم والے ، نارمل وزن والے اور موٹے لوگ شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق مناسب وزن اور جسم رکھنے کے باوجود بڑھے ہوئے پیٹ والے افراد میں بھی بڑھاپے میں مخبوط الحواسی کا شکار ہونے کے امکانات 90فیصد ہوتے ہیں۔ جبکہ ایسے موٹے افراد جن کا پیٹ بھی بڑھا ہوا ہو، اُن میں اس بیماری کا شکار ہونے کا تناسب 260 فیصد تک پایا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مناسب خوراک کے استعمال اور ورزش کرنے سے پیٹ کی اندرونی چربی گھل کر ختم ہوجاتی ہے اور اس طرح مخبوط الحواسی جیسی بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ وہ چربی سے نکلنے والے مادے کا دماغ یا یادداشت سے تعلق تلاش کرنے کے لئے مزید تحقیق کر رہے ہیں۔
بہرحال انسان کی خوراک اور اس کی مقدار کا اس کے موٹاپے سے گہرا تعلق ہے- لیکن انسانی جذبات کا کھانے کی عادت اور وزن میں اضافے کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اس حوالہ سے برطانیہ کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ تنہائی اور اداسی کے باعث معمول سے ہٹ کر کم یا زیادہ کھانے والوں کو وزن کم کرنے یا وزن کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی جذبات کا کھانے کی عادات اور طلب پر بھی اثر ہوتا ہے۔ برطانوی محققین کی حال ہی میں شائع کی جانے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ماہرین نے ڈائیٹنگ کرکے وزن کم کرنے کے خواہش مند 286؍ افراد کا مطالعاتی تحقیقی جائزہ لیا۔ ماہرین نے 3300 دیگر ایسے بالغ افراد کے ساتھ بھی ان کا موازنہ کیا جنہوں نے اپنا وزن کم از کم 30 پاؤنڈ کم کیا تھا۔ دونوں گروپوں میں شامل افراد کو اُن کی روزمرہ خوراک کے علاوہ انسانی جذبات مثلاً اداسی، تنہائی یا لطف اندوزی کے طور پر کھانے کی عادات کے حوالے سے ایک سوالنامہ دیا گیا جن کے جوابات کی روشنی میں ماہرین نے اخذ کیا کہ مختلف جذبات کے دوران مثلاً اداسی، تنہائی اور لطف اندوزی کے طور پر کھانا کھانے کا وزن میں اضافے سے بھرپور تعلق ہے اور جذباتی افراد ڈائیٹنگ کرکے اپنا وزن کم نہیں کرسکتے۔
لیکن یاد رکھیں کہ موٹاپے کا غیرقدرتی علاج خطرناک ہے
امریکی طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا طریق انسانی جسم کے لئے زیادہ موزوں نہیں ہے جو غذا پر قابو پانے کی بجائے موٹاپے کو دواؤں کے استعمال کے ذریعے کم کرنے پر زور دے۔ نیز وزن میں فوری کمی کی بجائے فی ہفتہ صرف دو پاؤنڈ وزن کم کرنا چاہئے۔ پس ایسے معمر افراد جو اپنے وزن میں کمی کے لئے ورزش کرتے ہیں اور خوراک کا استعمال کم کردیتے ہیں، اُن کی ہڈیاں تیزی سے کمزور ہونے لگتی ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں