مولانا بشیر احمد طاہر صاحب

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ 26؍اپریل 2005ء میں مکرم سید قیام الدین برق مربی سلسلہ کے قلم سے محترم مولانا بشیر احمد طاہر صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان کا ذکر خیر شامل اشاعت ہے۔ آپ کی وفات 7؍ فروری 2005ء کو ہوئی۔ اور جامعہ احمدیہ قادیان میں درس و تدریس کو زندگی بھر اوڑھنا اور بچھونا بنانے کا فخر آپ کو حاصل رہا۔
مرحوم کا آبائی وطن ہاٹا علاقہ گورکھ پور میں ہے۔ آپ کا پورا خاندان ہندو برادری کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور پنڈتوں کا خاندان ہے۔ آپ ہندو سے احمدی مسلمان ہوئے تھے۔ اپنے آبائی علاقہ میں تبلیغ اسلام اور وہاں احمدیہ مشن کے قیام کے لئے آپ کے دل میں ایک خاص جوش تھا۔ جب ایک بار خاکسار نے آپ سے وہاں باقاعدہ مشن ہاؤس کھولنے کے سلسلہ میں دُشواریوں کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاٹا (گورکھ پور) میں میری معقول جائیداد ہے، اگر احمدیت کی تبلیغی سرگرمی میں تیزی آئی اور مشن کے لئے زمین کی ضرورت ہوتو پھر میری آبائی زمین حاضر ہے جب ضرورت ہو تو مَیں وہاں آکر زمین مرکز کے نام رجسٹریشن کرواسکتا ہوں۔
آپ بیان کرتے تھے کہ قبول احمدیت کے بعد مَیں گورکھپور سے قادیان آگیا تو میرے رشتہ داروں نے مجھے واپس اپنے میں ملانے کی بہت کوشش کی۔ ایک مرتبہ ایک احمدی قادیان سے ہاٹاؔ میرے گھر گئے تو میرے بھائی (جو کٹر قسم کے ہندو پنڈت ہیں) اُن کو اپنے کھیت پر لے گئے اور نہایت فخر سے بتایا کہ ’’دیکھو یہ حد نگاہ تک جو ساری سبز ہریالی لہلہاتی کھیتیاں ہیں یہ سب ہماری ہیں اور ہمارا جو رہائشی مکان ہے وہ بھی خوب عمدہ ہے، مگر دیکھو ہمارا ایک بھائی پنجاب میں کہاں پڑا ہے اُس کے پاس کیا ہے؟ اس کو یہ سب میسر کہاں؟ میں نے خود قادیان جاکر دیکھا ہے کہ میرا بھائی معمولی سی اینٹوں سے جڑے ہوئے ایک مکان میں رہتا ہے‘‘۔ جب یہ ساری باتیں میرے علم میں آئیں تو مجھے وقتی طور پر کچھ عجیب سالگا مگر میں جانتا تھا کہ جس ایمانی دولت سے خدا تعالیٰ نے مجھے مالامال کیا ہے وہ سب میرے بھائیوں کے نصیب میں کہاں؟۔ میرے غیور خدا کو میرے پنڈت بھائی کی وہ متکبرانہ باتیں پسند نہ آئیں جو انہوں نے ایمان کے بالمقابل فخریہ طور پر اپنے عمدہ مکان اور تاحد نگاہ ہرے بھرے لہلہاتے کھیت دکھائے تھے اللہ تعالیٰ نے اس بیان کے چند سال بعد ہی خاکسار کو ایک عمدہ کشادہ خوبصورت مکان عطا کر دیا جو کشش کے لحاظ سے میرے بھائیوں کے مکان سے کہیں بہتر ہے۔
آپ احمدیت کی تعلیم کے عاشق تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے میرے ہاتھ میں ایک تاریخی نوعیت کی کتاب دیکھی تو ناصحانہ انداز میں کہنے لگے ’’مجھے تو جماعتی کتب سے محبت ہے اور میں زیادہ تر حضرت مسیح موعودؑ کی اور جماعتی کتب دیکھنا پسند کرتا ہوں۔ دیکھو دوسری کتابیں ضرور پڑھو مگر تم کو وہ روحانیت نہیں ملے گی جو جماعتی لٹریچر میں موجود ہے۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں