مقبرہ نور جہاں لاہور

ایک ایرانی نژاد مرزا غیاث بیگ نے افلاس سے تنگ آکر ایران سے ہجرت کی اور ہندوستان آکر دربارِ اکبری سے وابستہ ہوگیا- اُس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام مہرالنساء تھا جس نے تاریخ میں نورجہاں کے نام سے شہرت پائی- اُس کی پہلی شادی ایک ایرانی باشندے شیرافگن سے ہوئی جس کا اصلی نام علی قلی بیگ تھا اور اُس کی وفات کے بعد مہرالنساء مغل بادشاہ جہانگیر کے عقد میں آئی اور اُس کی چہیتی بیوی بنی- حتّٰی کہ عہد جہانگیری کے سکّوں پر بھی اُس کا نام کندہ کیا گیا- جہانگیر کی وفات کے 18 سال بعد نورجہاں 1645ء میں 72 سال کی عمر میں فوت ہوئی اور دریائے راوی کے کنارے شاہدرہ میں مقبرہ جہانگیر کے پاس اُس کی تدفین ہوئی- نورجہاں نے اپنا مقبرہ اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروالیا تھا جو 3 لاکھ روپے کی لاگت سے چار سال کی مدت میں مکمل ہوا- مقبرہ ایک چار فٹ اونچے پلیٹ فارم پر تعمیر کیا گیا ہے اور عمارت 19؍فٹ چار انچ بلند ہے- اس میں سنگ ابری، سنگ سرخ، سنگ مرمر سیاہ اور پیلے پتھروں سے سجاوٹ کی گئی ہے- مقبرہ کی عمارت محض ستونوں پر کھڑی ہے اور مقبرے کے گرد خوبصورت باغ ہے- مقبرے کے درمیانی محراب میں سنگ مرمر کے ایک پلیٹ فارم پر دو قبریں ہیں ایک نورجہاں کی اور دوسری اُس کی بیٹی لاڈلی بیگم کی- قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے 99 صفاتی نام کندہ ہیں اور سر کی جانب ایک آیت قرآنی درج ہے-
رنجیت سنگھ کے زمانہ میں پورا مقبرہ اور اس کے آرائشی پتھر اکھاڑ دیئے گئے اور قبریں کھود کر دو تابوت نکالے گئے جو لوہے کے کنڈوں سے کمرے میں لٹکے ہوئے تھے- کنڈے توڑ کر صندوق زیر زمین دفن کردیئے گئے- اب آپ تہہ خانے میں جاکر وہ جگہ دیکھ سکتے ہیں جہاں دونوں تابوت دفن ہیں- آثار قدیمہ کے مطابق اس تہ خانے سے دو سرنگیں نکلتی تھیں ایک ہرن مینار شیخوپورہ جاتی تھی اور دوسری شالامار باغ لاہور تک- سیلاب کے دنوں میں یہ سرنگیں پانی سے بھر جاتی تھیں اس لئے انہیں بند کردیا گیا ہے- یہ معلوماتی مضمون مکرم عطاء المنان طاہر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اگست 98ء میں شائع ہوا ہے-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں