معجزانہ الٰہی حفاظت کے نظارے

ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ جون 2006ء میں معجزانہ الٰہی حفاظت کے ایسے واقعات (مرسلہ:انصر حسین صاحب) شائع کئے گئے ہیں جو مکرم مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری نے بیان کئے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں کہ :
٭ دسمبر 1958ء میں منروویا (لائبیریا) میں قیام کے دوران میرے اہل وعیال بھی میرے ساتھ تھے۔ احمدیہ مرکز لکڑی کی ایک وسیع دو منزلہ عمارت کے اوپر کے حصہ میں تھا۔ ایک رات بچے اپنے کمرہ میں رات گئے تک استری کرتے رہے۔ بڑا لڑکا بعمر 14 سال الیکڑک آئرن کا سوئچ آن کر کے قریب ہی فرش پر ایسا لیٹا کہ آنکھ لگ گئی اور شاید اس کے پاؤں کی ٹھوکر سے استری بھی فرش پر گرگئی جس سے پہلے فرش پر دری کا متعلقہ حصہ جلا اور پھر فرش کا موٹا تختہ جلتا رہا۔ حتیٰ کہ آگ نیچے کے شہتیر تک پہنچ گئی۔ اس کمرہ کے نیچے آتش بازی کی خاصی بڑی دکان تھی۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ایسا خاص فضل و رحم فرمایا کہ آگ سلگتی تو رہی مگر نہ روشن ہوئی اور نہ اِدھر اُدھر پھیلی۔ ظاہر ہے کہ نچلی دکان کو آگ لگنے کی صور ت میں ساری عمارت کے جلنے کے علاوہ عمارت میں مقیم بیس پچیس افراد کا بچنا بھی مشکل تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کمال رحم و کرم سے ایک طرف آگ کو چھت کے نچلے حصے تک جانے سے روکے رکھا اور دوسری طرف رات ڈیڑھ بجے مجھے اچانک جگا کر یہ احساس دلایا کہ کہیں کوئی چیز جل رہی ہے۔ خاکسار جلدی سے مختلف کمرے دیکھتا ہوا اُس کمرہ میں پہنچا تو دیکھا کہ استری کے چاروں طرف آگ کی سرخی نظر آرہی ہے اور کچھ دھواں بھی نکل رہا ہے اور لڑکا پاس ہی گہری نیند سورہا ہے۔ میں نے سوئچ کو آف کرکے جب چھت کے اندر دھنسی ہوئی استری کو سیدھا کیا تو دیکھا کہ اس کا نچلا حصہ سرخ ہے اور جہاں پروہ گری ہوئی تھی وہاں اسی سائز کا ڈیڑھ انچ گہرا گڑھا پڑ گیا ہے جس میں ہر طرف آگ سلگ رہی ہے۔ میں نے نہایت احتیاط سے وہ آگ ختم کی۔ پھر بچوں اور بیوی کو جگاکر سارا ماجرا سنایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعتی وقار و حفاظت کی خاطر ہم عاجز بندوں کی پردہ پوشی فرمائی ہے اور جماعت کو اتنے بڑے نقصان سے اور شماتتِ اعداء سے محفوظ رکھا ہے۔
٭ اپریل 1940ء کے آخر میں حضرت مولانا نذیر احمد علیؓ اور خاکسار سیرالیون کے شہر بو سے بارہ میل کے فاصلہ پر قصبہ DAMBARA میں تبلیغ کے لئے گئے۔ اس قصبہ کا ناخواندہ پیراماؤنٹ چیف محض اس لئے عیسائی تھا کہ اس کے لڑکے عیسائی سکولوں میں پڑھے تھے اور ڈانمبارا میں کیتھولک عیسائی چرچ کی سرپرستی کر رہے تھے ورنہ درحقیقت اس کے آباؤ اجداد مسلمان تھے۔ عیسائیت کے زور اور ظاہری دبدبہ کی وجہ سے وہاں کی مسجد بھی غیر آباد پڑی تھی۔ مسلمانوں کے پندرہ بیس گھر تھے لیکن وہ عیسائیوں سے اتنے مرعوب تھے کہ نمازیں بھی اپنے گھروں میں چھپ کر ادا کرتے تھے۔ ہم نے ایک ہفتہ وہاں ٹھہر کر چیف کی عدالت میں چار پانچ مرتبہ اسلام کی صداقت پر پبلک لیکچر دیئے جن میں پیراماؤنٹ چیف خود بھی شامل ہوتا رہا۔ عیسائی پادری صاحب سے پہلے روز ہماری پبلک گفتگو ایسی کامیاب رہی کہ اس کے بعد جب تک ہم وہاں رہے وہ شرم کے مارے گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ ہم نے پیراماؤنٹ چیف کی اجازت سے اس کے مکان کے صحن میں باجماعت نمازیں بھی ادا کرنی شروع کردیں جن میں مسلمانوں اور مشرکوں کے علاوہ کبھی کبھی چیف خود بھی ہمارے ساتھ شریک ہوجاتا۔ اس دوران ایک روز حضرت مولانا علی صاحبؓ نے قصبہ کے مسلمانوں کی میٹنگ بلائی اور انہیں حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کی اطلاع کرکے مسجد آباد کرنے کو کہا۔ انہوں نے عذر کیا کہ ہم غریب لوگ ہیں، ہمارا عیسائی چیف اور اس کا خاندان برا منائے گا۔ لیکن مولانا صاحب نے اُنہیں جرأت دلائی اور چیف سے خود بات کرنے کے علاوہ احمدیہ مرکز کی طرف سے ہمیشہ ان کی مدد اور سرپرستی کرنے کی پیشکش بھی کی۔ چنانچہ وہاں آخری دو روز ہم نے غریب مسلمانوں کے ساتھ قصبہ کی اسی ٹوٹی پھوٹی مسجد میں نمازیں ادا کیں اور اس دوران اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان میں سے بیس افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے۔
جب پہلی مرتبہ ہم نے اس مسجد میں نمازِ مغرب ادا کی تو مسجد میں صرف دو نہایت بوسیدہ چٹائیاں تھیں اور گھاس کی چھت بھی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ فرش بھی کچا اور نہایت گندا تھا۔ چھت نیچی تھی اس لئے تین طرف دروازے ہونے کے باوجود مسجد کے اندر اندھیرا تھا۔ تا ہم اس وقت مٹی کے تیل کے ایک دیے کا انتظام کر لیا گیا تھا۔ محراب میں کوئی چٹائی نہ تھی۔ حضرت مولانا صاحبؓ نے اپنا کپڑے کا جائے نماز بچھا کر نماز پڑھائی۔ اتنے میں بارش شروع ہوگئی اور نماز کی دوسری رکعت میں ایک شخص نے دیکھا کہ ایک نہایت ہی زہریلا سانپ مسجد کے دروازہ سے داخل ہو کر دیوار کے ساتھ چٹائیوں کی اوٹ سے رینگتا ہوا محراب میں جو عام فرش سے کچھ اونچا تھا داخل ہوگیا ہے۔ لیکن اس شخص کو دین کا علم اتنا نہیں تھا کہ ایسے وقت میں نماز کو توڑ کر سانپ کو مارنا ضروری ہوتا ہے اور نہ اسے اس کی جرأت ہوئی۔ وہ نماز ختم ہونے تک خاموش رہا۔ اتنے میں سانپ دیوار کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا صاحبؓ کے جائے نماز کے نیچے چھپ گیا۔ چونکہ محراب میں اندھیرا تھا اس لئے مولانا صاحب کو یاکسی اَور کو وہ سانپ نظر نہ آیا۔
نماز ختم ہونے پر اسی شخص نے ہمیں بتایا کہ مولانا صاحب کی جائے نماز کے نیچے سانپ چھپا ہے بلکہ ایک دو اور دوستوں نے بھی کہا کہ ہمیں بھی نماز میں ایسا ہی شبہ تھا اس پر مسجد میں بھگدڑ سی مچ گئی اور اکثر لوگ باہر نکل آئے۔ مولانا صاحب بھی محراب چھوڑ کر فوراً پیچھے ہٹ آئے۔ اور اس کے بعد وہ سانپ مار دیا گیا۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ وہ نہایت زہریلا ہونے کے علاوہ ایسا سانپ ہے جو ضرور ڈستا ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مسیح محمدی کے ایک فدائی مجاہد اور اس کے ساتھیوں کو اس موذی سانپ سے محفوظ رکھا۔ الحمدللہ‘‘۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں