مشرقی افریقہ میں دعوت الی اللہ کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مئی 2005ء میں شامل اشاعت مکرم عبدالکریم شرما صاحب نے اپنے مضمون میں مشرقی افریقہ میں تبلیغ احمدیت کے بعض گوشوں کی نقاب کشائی کی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی مشرقی افریقہ میں کئی صحابہؓ آئے لیکن ان کی تبلیغ ہندوستانیوں تک ہی محدود تھی۔ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم کے آنے کے بعد افریقیوں میں دعوت الی اللہ کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں ٹبورا (Tabora) تبلیغ کا مرکز بنا۔ جب یہاں چھوٹی سی جماعت قائم ہوگئی اور مسجد کی بنیاد رکھنے کا مرحلہ آیا تو سخت مخالفت اٹھ کھڑی ہوئی۔ افریقی احمدیوں کو مارا پیٹا گیا اور بعض شدید زخمی ہوئے۔ حکومت کو امن و امان قائم رکھنے کے لئے Task Force کو بلوانا پڑا۔ بعد میں مسجد فضل تعمیر ہوئی جو ٹانگا نیکا کی پہلی احمدیہ مسجد ہے۔
جب مَیں دوسری دفعہ ٹبورا گیا تو محترم شیخ مبارک احمد صاحب نیروبی جاچکے تھے۔ جماعت نے چھوٹا سا پرنٹنگ پریس خریدا ہوا تھا جس کے مینیجر چوہدری عنایت اللہ احمدی تھے۔ معلم یوسف دینا جماعت کے صدر تھے۔ گورنمنٹ سیکنڈری سکول ٹبورا میں خاکسار ہفتہ میں دو دن طلباء کو اسلامی تعلیم دیتا تھا۔ کلاس میں مسلمان اور عیسائی طلباء بھی کثرت سے آتے تھے۔ گرلز سیکنڈری سکول میں بھی دینیات کی کلاس لیتا تھا۔ اتوار کو ٹبورا کی سنٹرل جیل میں قیدیوں کو اخلاقی اور مذہبی تعلیم دینے کی مشنریوں کو اجازت تھی۔ جو قیدی میرے پاس آتے ان میں ایک تعلیم یافتہ عرب نوجوان عبد اللہ الکندی بھی تھے۔ انگریزی زبان میں ان کو عبور حاصل تھا۔ خاندانی جھگڑے میں ملوث ہوجانے کی وجہ سے ان کو چند ماہ کی قید کی سزا ہوئی تھی۔ جیل میں انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور رہائی کے بعد عربوں میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے بہت جدوجہد کی۔
مجھے مشرقی افریقہ کے تینوں ممالک میں کام کرنے کا موقع ملا۔ دارالسلام کے ساحلی علاقہ میں کئی سفر کئے۔ وہاں ایک جزیرہ Kilwa Kiziwani ہے جہاں عرب سب سے پہلے پہنچے تھے۔ ان کے عہد کی یادگار ایک پرانی مسجد بھی تھی جو خاصی بڑی اور مستطیل تھی۔ اس کے سات حصے تھے۔ ہر حصہ میں محراب تھا۔ پہلے حصہ کے محراب میں جب امام تکبیرکہتا تو یکے بعد دیگرے دوسرے حصوں میں بھی تکبیریں کہی جاتی تھیں۔ اس طرح مسجد کے آخر تک آواز پہنچ جاتی تھی۔ میں نے جگہ صاف کرکے مسجد میں چار نفل ادا کئے اور ان بزرگوں کے لئے دعا کی جن کی کاوش سے اس خطہ میں اسلام کا آغاز ہوا۔ یہاں پہلے مربی مکرم مولوی فضل الٰہی بشیر صاحب تھے جن کے ذریعہ ایک افریقی معلم احمدی ہوئے اور پھر جماعت قائم ہوئی۔
سونگیا کے بعض احمدی نیاسالینڈ میں جاکر بس گئے تھے اور اُن کی تبلیغ سے وہاں بھی نئے احمدی ہوئے تھے۔ وہاں عیسائی مشنوں کا زور تھا۔ مَیں نے وہاں مشن ہاؤس کھولنے کے لئے ملک رفیق احمد صاحب کو بھجوادیا۔ اس اثناء میں میری تبدیلی کینیا میں ہوگئی۔ پھر آٹھ سال بعد رخصت پر پاکستان آیا۔
1957ء میں مجھے دوبارہ مشرقی افریقہ بھجوایا گیا تو تقرری ممباسہ میں ہوئی۔ ان دنوں یہاں پانچ گھرانے پاکستانی احمدیوں کے تھے۔ مقامی باشندوں میں سے ابھی کوئی احمدی نہیں ہوا تھا۔ مسجد تعمیر ہوچکی تھی جس کے اخراجات اماں موتی جان بیگم حضرت سید معراج الدین صاحب مرحوم نے برداشت کیے تھے۔ یہاں عرب اثرو رسوخ زیادہ تھا اور ہماری مخالفت بھی تھی۔ مجھ سے پہلے مکرم مولوی نورالدین منیر صاحب یہاں رہے تھے۔ وہ صحافت میں ایم اے کئے ہوئے تھے۔ جب اخبار East Afircan Times جاری کیا گیا تو اُس کی ادارت کے لئے وہ نیروبی چلے گئے۔
ممباسہ میں مقامی باشندوں کو زیر اثر لانے کے لئے میں نے شام کو مسجد میں انگریزی اور حساب پڑھانے کی کلاسیں کھولیں۔ آہستہ آہستہ افریقی اور عرب نوجوان پڑھنے کے لئے آنے لگے۔خلیج سے عرب تاجر بادبانی کشتیوں میں ممباسہ آتے تو انگریزی پڑھنے کے لئے کلاسوں میں بھی آتے ۔ اس طرح شام کو مسجد میں کافی رونق ہوجاتی اور ان سے مذہبی گفتگو ہوتی۔ سوال وجواب کی مجلس بھی لگتی۔ کچھ نوجوانوں نے بیعت بھی کی جن میں Coast People Party کے لیڈر مسٹر ابو بکر بھی تھے۔
ممباسہ میں Miomeاور عرب سیکنڈری سکول کی دو مشہور درسگاہوں میں بھی جاتا تھا۔ Miome کی درسگاہ میں مشرقی افریقہ کے مسلمان طلباء اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لیتے تھے۔ یہاں میرے لئے ایک کمرہ مخصوص کر دیا گیا تھا جس میں طلباء سے دینی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ یوگنڈا کے سلیمان مانجے اور عبودڈو فالا بھی شریک ہوتے۔ بعد میں یہ دونوں احمدی ہوگئے۔ مانجے نے قرآن کریم کے لوگنڈا (Luganda) زبان میں ترجمہ کرنے کے کام میں بھی بھر پور حصہ لیا۔
ممباسہ میں قیام کے دوران پانچ نوجوان طلباء نے احمدیت قبول کی تھی۔ پہلے حسین صالح عرب تھے جن کا خاندان یمن سے آکر ممباسہ میں آباد ہوا تھا۔ ان کا چھوٹا بھائی بھی احمدی ہوگیا تھا اور ایک دفعہ کویت سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی ملاقات کے لئے بھی لندن آیا۔ دوسرے طلباء میں مسٹر طالب نے رشیا میں انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ اس وقت نیروبی میں اچھے عہدہ پر فائز ہیں۔ مسٹر محمد سالم کی سر پرست ایک یورپین خاتون تھیں۔ وہ سکنڈے نیویا کی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرکے ملازمت کے لئے سعودی عرب چلے گئے۔ وہ یونیورسٹی میں بھی تبلیغ میں سرگرم رہے۔
ممباسہ میں ایک نابینا عرب مکرم سالم عفیف مسجد آکر اختلافی مسائل پر گفتگو کرتے۔ ایک روز کہنے لگے کہ چلو سنیوں کے عالم کے ہاں چلیں۔ وہ عالم ریڈیو پر مذہبی سوالات کے جواب دیا کرتے تھے۔ جب ہم اُن کے گھر گئے تو حافظ صاحب نے کہا کہ میں احمدی مبلغ کو لے کر آیا ہوں تابالمشافہ آپ سے اختلافی مسائل پر گفتگو ہوجائے لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے۔ اس پر سالم عفیف صاحب نے مسجد واپس آکر بیعت کر لی۔ وہ پُر جوش داعی الی اللہ تھے۔ ایک مسیحی ادارہ میں Brail System کے استاد تھے اور اپنے شاگردوں کو Brail میں تبلیغی خطوط بھجوایا کرتے تھے۔ عیسائیوں کی دھمکیوں کے باوجود وہ تبلیغ میں سرگرم رہے۔
خاکسار جن دنوں ممباسہ میں تھا تو ٹاویٹا کے علاقہ سے کچھ لوگوں نے ممباسہ میں آکر احمدیت قبول کی۔ واپس گئے تو ان کی شدید مخالفت ہوئی اور بائیکاٹ کردیا گیا۔ وہاں ضلعی آفیسر ایک انگریز نوجوان تھے۔ میں ان کو جا کر ملا، احمدیت کا تعارف کروایا اور مخالفت کی نوعیت بتائی۔ انہوں نے فتنہ پردازوں کے سرغنوں کو دفتر میں بلا کر تنبیہ کی۔ پھر امن ہونے کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جلد ہی اس علاقہ میں Kitobo اور Kitogoto کے مقامات پر دو جماعتیں قائم ہوگئیں۔ خاکسار جب بھی جاتا تو Kitobo کی کچی مسجد میں قیام کرتا۔ ایک دن فجر کی نماز کے بعد میں درس دے رہا تھا کہ ایک بزرگ کچھ دیر کے لئے اٹھ کر چلے گئے۔ جب آئے تو میرے پوچھنے پر بتایا کہ آپ کے لئے مینڈھا ذبح کرنے گیا تھا کیونکہ آپ جب سے آئے ہیں چاول اور مسور کی دال کھاتے ہیں۔ میں نے کہ آپ نے یہ کیا کیا؟۔ مجھے تو گوشت کی اتنی رغبت نہیں ہے، آپ نے قیمتی جانور کیوں ذبح کر دیا۔ کہنے لگے کوئی حرج نہیں ہے، آپ کی وجہ سے سارا گاؤں گوشت کھالے گا۔سواحیلی مقولہ ہے کہ جب مہمان آتا ہے تو سارا گاؤں سیر ہو کر کھاتا ہے۔
Kitoboto کی جماعت میں جمعہ علی ایک مخلص بزرگ تھے۔ انہوں نے ممباسہ میں آکر بیعت کی تھی۔ ان کا لڑکا حسن جمعہ سیکنڈری سکول کا طالب علم تھا۔ میں نے ان کو کہا کہ اپنے بیٹے کو وقف کر دیں۔ انہوں بیٹا وقف کردیا۔ چنانچہ اُس بیٹے نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں تعلیم حاصل کی اور اب بطور مرکزی مبلغ خدمت کررہا ہے۔
ممباسہ کے قریب Kwale کے علاقہ میں مسٹر علی وراقا صاحب نے احمدیت قبول کی۔ ان کا بیٹا کینیا میں Mr. A.M. Gakuria منسٹر آف لیبر ہے۔ اس علاقہ کی ایک اور معزز شخصیت مسٹر عثمان مینی گاکوریا کی ہے۔ وہ کینیا کے ڈائریکٹر آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کے عہدہ پر فائز تھے۔ نہایت منکسر المزاج اور فدائی احمدی تھے۔ باشرح چندہ ادا کرتے اور ہر خدمت میں پیش پیش تھے۔ اپنی کار کو دعوت الی اللہ کے لئے پیش کرکے خوشی محسوس کرتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں