مشرقی افریقہ میں احمدیت کا آغاز

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9مئی 2005ء میں محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے قلم سے مشرقی افریقہ میں احمدیت کی ابتدائی تاریخ شائع ہوئی ہے۔
شروع 1896ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دو صحابہ حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت میاں عبداللہ صاحبؓ یوگنڈا ریلوے میں بھرتی ہوکر کینیا کالونی کی بندرگاہ ممباسہ میں پہنچے۔ یہ مشرقی افریقہ کے ساحل پر قدم رکھنے والے پہلے احمدی تھے۔ اسی سال تھوڑے تھوڑے وقفہ سے حضرت ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب گوڑیانویؓ (ملٹری میں) شیخ محمد بخش صاحبؓ ساکن کڑیانوالہ ضلع گجرات (بعہدہ ہیڈ جمعداری) حضرت شیخ نور احمد صاحب جالندھریؓ اور حضور علیہ السلام کے خادم خاص حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ، نیز حضرت حافظ محمد اسحق صاحبؓ اور ان کے بھائی حضرت میاں قطب الدین صاحبؓ ساکن بھیرہ بھی یوگنڈا ریلوے کے ملازم کی حیثیت سے وارد ممباسہ ہوئے تو مشرقی افریقہ میں احمدیہ جماعت کی داغ بیل پڑی۔ ان میں سے حضرت حافظ محمد اسحق صاحبؓ اور حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ کو آب وہوا کی ناموافقت یا بعض دوسرے ضروری اور نجی امور کی وجہ سے جلد واپس آنا پڑا۔ لیکن ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب گوڑیانوی تین سال تک ملٹری میں رہے۔ اور بڑی متانت اور حکمت کے ساتھ اپنے حلقہ میں احمدیت کی اشاعت کرتے رہے۔ چنانچہ بہت سوں نے آپؓ سے قرآن مجید پڑھا۔ بعضوں کو حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی خوابیں آئیں اور وہ بیعت سے مشرف ہوئے۔ ان میں حضرت بابو عمر الدین صاحب بھی تھے جنہوں نے اکتوبر 1900ء میں کلنڈینی میں انتقال کیا۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ کے فیض صحبت سے ان کے پانچ ساتھی ڈاکٹروں کو بھی قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
حضرت ڈاکٹر صاحبؓ تین سال کے بعد اپنے وطن تشریف لے آئے۔ مگر حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ اور حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ پانچ سال تک مخالفت کے باوجود اشاعت احمدیت میں مصروف رہے۔ ان کے ذریعہ بہت سے افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جن میں سے ایک حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب (آف رنمل ضلع گجرات) تھے۔ پھر اُن کا نیک نمونہ دیکھ کر اُن کے حقیقی بھائی حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت پیر برکت علی صاحبؓ بھی احمدی ہوگئے بلکہ حضرت سیٹھ ڈاکٹر عبد اللہ صاحب آف گجرات اور کئی اَور احباب بھی حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے۔ حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحب کی دعوت سے نیروبی سے دو سو میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں میروؔ میں قاسم منگیا نامی ایک میمن اپنے خاندان سمیت داخل سلسلہ ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ یہاں مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہوگئی جن میں سیٹھ عثمان یعقوب صاحب اور ان کے بڑے بھائی حاجی ایوب صاحب اور سیٹھ نور احمد صاحب، حاجی ابراہیم صاحب اور حاجی ایوب صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ ممباسہ کے کلنڈینی (kilindini)ہسپتال میں کام کرتے تھے۔ یہ ہسپتال ان دنوں مشرقی افریقہ میں اشاعت احمدیت کا ایک مرکز بن گیا تھا جہاں جماعت کے باقاعدہ ہفتہ وار اجلاس ہوتے۔ قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود کا درس دیا جاتا اور اختلافی مسائل پر تقاریر کی جاتیں۔ حضرت ڈاکٹر صاحبؓ 1901ء کے شروع میں واپس ہندوستان آئے اور پھر سومالی لینڈ گئے جہاں فوجی خدمات کے دوران 28 برس کی عمر میں شہید کر دئیے گئے۔ 1901ء میں الحکم میں مشرقی افریقہ کے احمدیوں کی فہرست شائع ہوئی جن کی تعداد پچاس سے تجاوز کرچکی تھی۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں بیرونی ممالک کے لحاظ سے مشرقی افریقہ کی احمدیہ جماعت سب سے پہلی اور سب سے بڑی جماعت تھی جس نے شروع ہی سے سلسلہ کی مالی قربانیوں میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ چنانچہ 1901ء تک تخمیناً چھ ہزار سے زیادہ روپیہ وہاں سے قادیان بھجوایا گیا۔ خلافت ثانیہ کے ابتدائی سالوں میں کینیا کالونی کے علاقہ میں ہندوستانی احمدیوں کی آمد کا سلسلہ زور پکڑ گیا۔ اور دعوت الی اللہ کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہونے لگا۔
یوگنڈا میں پیغام احمدیت خلافت اولیٰ کے آخری سال یا خلافت ثانیہ کے آغاز میں پہنچا جبکہ سب سے پہلے ڈاکٹر فضل الدین صاحب وہاں پہنچے۔ پھر مزید احمدی بھی تشریف لے گئے اور اس طرح ایشیائی احمدیوں کی ایک جماعت کا وہاں قیام ہوگیا۔
ٹانگا نیکا بہت دیر کے بعد احمدیت سے روشناس ہوا۔ اگرچہ ہندوستانی احمدیوں کی مختصر سی جماعت شروع میں اس علاقہ کے مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی تھی۔ مگر کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ آخر بابو محمد یوسف صاحب پوسٹ ماسٹر اور بعض دوسرے احمدیو کی کوشش اور ہمت سے ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی۔ ٹانگا نیکا میں دوسرا مقام جہاں ہندوستانی احمدیوں کی ایک پر جوش جماعت قائم ہوئی ٹبوار تھا۔ یہ جماعت اپنے اخلاص و محبت اور مساعی میں بہت آگے نکل گئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں