مسرتوں کے ساتھیو – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2010ء میں محترم ثاقب زیروی صاحب کی ایک طویل نظم ’’یاددہانی‘‘ شامل ہے جس میں یوم آزادیٔ پاکستان کی شب ایک محفل رقص و سرود دیکھ کر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

جناب ثاقب زیروی صاحب

مسرتوں کے ساتھیو
تمازتوں کے دوستو
ہجومِ درد چھٹ گیا
الم کا رنگ کٹ گیا
ہے کائنات نغمہ زن
ہَوا ہوئے غم و محن
یہ حسن و سحر دلبری
بہک چلی ہے زندگی
انہیں جو دیکھ پائے گا
نہ کیوں پئے پلائے گا
ابھی تو عام ہے پیو
خرد غلام ہے پیو

وہ بے حساب عصمتیں
وہ بے مثال برکتیں
جو دن دہاڑے لٹ گئیں
تمہیں جو یاد تک نہیں
یہ ان کا خون ہے پیو
پیو پلائو اور جیئو

خدا نہ دے وہ بے ضمیر
کہ جن سے قوم ہو حقیر
فقط امیر بن امیر
سرور و رقص کے اسیر

یہ فاقہ مست و خستہ حال
نحیف برق کی مثال
اگر یہ آگ ابل پڑی
اگر یہ بھوک جاگ اٹھی
تو زلزلہ سا آئے گا
تو عرش کانپ جائے گا

تو پھر یہ جنگ زر گری
یہ مکر و فن کی رہبری
یہ اہتمام مے کشی
یہ تاجرانہ دوستی
یہ سب بنیں گی ساقیا
نہنگ وقت کی غذا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں