مرزا اسداللہ خاں غالبؔ

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ مئی 2003ء میں اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کی سوانح و شاعری کا بیان مکرم فرخ شاد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
غالبؔ کا تعلق وسط ایشیا کے رہنے والے ایبک ترکمانوں کے خاندان سے تھا جس نے ہندوستان ہجرت کی۔ آپ 27؍دسمبر 1797ء کو آگرہ میں مرزا عبداللہ بیگ کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابھی آپکی عمر پانچ سال تھی کہ والد ایک مہم میں گولی لگنے سے وفات پاگئے اور آپ کو آپکے چچا مرزا نصراللہ بیگ خاں نے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ نو برس کی عمر میں یہ سایہ بھی سر سے اٹھ گیا تو آپ اپنے نانا خواجہ غلام حسین رئیس آگرہ کی سرپرستی میں آگئے اور سنِ شعور تک آگرہ ہی میں رہے۔
آپ نے دس بارہ سال کی عمر میں اردو میں شعر کہنا شرع کئے لیکن فارسی شاعر مرزا بیدل ؔ کا رنگ اپنایا جو بڑے پیچیدہ اور مشکل گو شاعر تھے۔ اسی زمانہ میں کسی نے غالب کے کلام کا نمونہ میر تقی میر کو پیش کیا تو میر نے کہا کہ اس لڑکے کو اگر کوئی کامل اُستاد مل گیا جس نے اسے سیدھے راستہ پر ڈال دیا تو لاجواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا۔
تیرہ برس کی عمر میں غالبؔ کی شادی ایک فارسی کے شاعر نواب الٰہی بخش معروفؔ کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہوگئی۔ چودہ برس کی عمر میں آپ کی ملاقات ایک پارسی نژاد سیاح اور عالم ہرمزؔ سے ہوئی جس نے بعد میں اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام عبدالصمد رکھا۔ اس سیاح سے آپ نے دو سال خوب اکتساب کیا اگرچہ شاعری میں کسی کے شاگرد نہیں ہوئے۔ 1813ء میں آپ نے دہلی میں نقل مکانی کرلی لیکن ساری عمر کرایہ کے مکانوں میں بسر کی۔ اسی طرح ساری عمر کبھی کتاب نہیں خریدی، ہمیشہ کرایہ پر لے کر پڑھیں۔ آپ کی خوبصورتی کی وجہ سے دہلی میں آپ کو مرزا نوشہ بھی کہا جاتا تھا۔
آپ پہلے اسدؔ تخلص کرتے تھے۔ ایک بار کسی عامیانہ کلام والے شاعر کے بارہ میں سنا کہ وہ بھی اسدؔ تخلص کرتے ہیں تو آپ کا جی بیزار ہوگیا چنانچہ 1828ء میں غالبؔ تخلص اختیار کرلیا البتہ پہلی غزلوں میں تخلص تبدیل نہیں کیا۔
جب آپ کے چچا مرزا نصراللہ بیگ کی وفات ہوئی تو اُن کی جائیداد کی آمدنی میں سے 750؍روپے سالانہ پنشن مقرر ہوئی۔ یہ رقم غدر (1857ء) تک آپ کو ملتی رہی اور پھر ہنگامۂ غدر کی وجہ سے تین سال کے لئے بند رہی۔ یہ وقت بہت تنگ دستی اور عسرت کا تھا۔ فاقہ کشی تک نوبت پہنچ گئی۔ ایک انگریزی مدرسہ میں فارسی کے استاد کی جگہ خالی ہوئی تو آپ بھی قسمت آزمانے وہاں پہنچے۔ لیکن بتایا گیا کہ مسلمان نہیں چاہئے۔ آپ نے کہا: آپ کو دھوکہ ہوا ہے، اگر عمر بھر ایک دن بھی شراب چھوڑی ہو تو کافر اور ایک دن بھی نماز پڑھی ہو تو مسلمان۔ مگر یہ حاضر جوابی کام نہ آئی۔
1830ء میں غالبؔ نے پنشن بڑھانے کے لئے کلکتہ کا سفر کیا لیکن کامیابی نہ ہوسکی۔ البتہ راستہ میں لکھنؤ ٹھہرے تو وہاں بہت قدر ہوئی۔ قریباً پونے تین سال بعد دہلی واپسی ہوئی تو ایک مخلص دوست مولوی فضل حق اور مرزا خالیؔ (کوتوال شہر) نے سمجھایا کہ مشکل لکھنے کی روش ترک کرکے عام فہم اشعار کہیں۔ ان دونوں نے غالبؔ کے کلام کی کانٹ چھانٹ کرکے بہت سا مہمل کلام نکال دیا۔ پھر غالبؔ نے آسان اور سلیس زبان میں کلام کہنا شروع کردیا۔
1842ء میں آپ دلّی کالج میں پروفیسری کے امیدوار ہوئے لیکن چونکہ گورنمنٹ سیکرٹری نے آپ کا استقبال نہیں کیا اس لئے کسر شان سمجھتے ہوئے ملازمت قبول کئے بغیر واپس چلے آئے۔
آپ کو شطرنج اور چوسر کھیلنے کی عادت تھی۔ کبھی بِد کر بھی کھیلتے تھے۔ 1847ء میں کوتوال کو علم ہوا تو اُس نے مقدمہ کرکے چھ ماہ کی سزا دلوادی لیکن تین ماہ بعد صحت کی بنا پر رہائی ہوگئی۔ رہائی کے بعد آپ ایک شخص میاں کالے کے مکان میں رہنے لگے۔ وہاں کسی نے قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی تو کہنے لگے: کون قید سے چھوٹا ہے، پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں۔
1849ء میں بہادرشاہ ظفرؔ نے آپ کو ’’نجم الدولہ دبیرالملک نظام جنگ‘‘ خطابات عطا کئے اور ایک تاریخ ’’مہر نیم روز‘‘ لکھنے کا حکم دیا جس کے صلہ میں پچاس روپے ماہوار مقرر کئے ۔ 1853ء میں استاد ابراہیم ذوقؔ کی وفات کے بعد غالبؔ بادشاہ کے استاد مقرر ہوئے۔ نواب یوسف علی خان والیٔ رامپور نوعمری میں غالبؔ سے فارسی پڑھا کرتے تھے۔ جب 1859ء میں وہ اپنی ریاست کے حکمران بن گئے تو باقاعدگی سے آخر تک ایک سو روپیہ ماہانہ کسی ریاستی خدمت کے بغیر غالبؔ کو بھجواتے رہے۔
غالبؔ کے سات بچے ہوئے لیکن کوئی زندہ نہ رہا۔ اپنی بیوی کے بھانجے زین العابدین خاں عارفؔ کو اپنی فرزندی میں لیا تو وہ بھی نوجوانی میں فوت ہوگئے۔ اس پر ایک دردناک مرثیہ کہا:

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دن اَور
تنہا گئے کیوں ، اب رہو تنہا کوئی دن اَور

اس کے بعد عارف کے دو کمسن بیٹوں کی پرورش کرتے رہے۔ عمر کے آخری حصہ میں سننے کی قوت جاتی رہی، شراب نوشی اور بیماریوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آخر 15؍فروری 1869ء کو 73 برس کی عمر میں وفات پائی۔
غالب بہت فراخ دل اور ہمدرد آدمی تھے۔ ہر خط کا جواب لکھنا اپنا اخلاقی فرض سمجھتے تھے۔ کوئی ناواقف بھی اصلاح کے لئے کلام بھیجتا تو اصلاح کئے بغیر واپس نہ کرتے۔ اگر کوئی جواب کے لئے ٹکٹ بھیجتا تو ناراض ہوتے۔ شاگردوں کو عزیز دوستوں یا بیٹوں کی طرح سمجھتے۔ بڑے خوددار اور غیور آدمی تھے۔ تمام عمر کسی کی ہجو نہیں کی۔ اگرچہ زیادہ بولتے نہ تھے مگر انتہائی زندہ دل، شگفتہ مزاج اور ظریف الطبع تھے۔ ہر وقت احباب کا مجمع جما رہتا۔ لیکن مذہب سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔
اردو اور فارسی کی غالب کی گیارہ تصانیف ہیں جن میں سے دو آپ کے خطوط پر مشتمل ہیں۔ ایک فارسی کلام ہے اور ایک اردو کلام ہے۔ کلام بہت اعلیٰ پایہ کا ہے اور اس میں بلندی پرواز کے ساتھ شوخ طبعی بھی بھری ہوئی ہے۔ اکثر اشعار پہلودار ہیں یعنی غور کرنے پر نئے معانی پیدا ہوتے ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں:

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
……………
بہرا ہوں مَیں تو چاہئے دونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
……………
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
……………
دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے
مَیں اسے دیکھوں بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے
نقش کو اس کے مصور پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھینچا جائے ہے
……………
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دَم نکلے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں