محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا ذکرخیر

محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کے بارے میں قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ء اور 20مئی 2016ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں دو مضامین شامل اشاعت کئے جاچکے ہیں ۔ تاہم لجنہ اماء اللہ جرمنی کے جریدہ ’’خدیجہ‘‘ کی خصوصی اشاعت میں شامل بعض اضافی امور ہدیۂ قارئین ہیں ۔
٭ اس شمارہ میں مکرم عبداللہ واگس ہاؤزر صاحب امیر جماعت جرمنی کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جو مبشرہ بندیشہ صاحبہ اور صباح بنگوی صاحبہ نے لیا تھا اور اس کا ترجمہ شگفتہ سلیم صاحبہ نے کیا ہے۔
مکرم امیر صاحب نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب سے میری پہلی ملاقات تب ہوئی جب مَیں ابھی اسلام سے بہت دُور تھا مگر وہ سات سال پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے۔ مَیں اُس زمانہ میں ’’فلاور پاور‘‘ کا مصروف رکن تھا اور شہر بونؔ میں ایک اخبار نکالا کرتا تھا۔ مسلمان ہونے سے پہلے ہیوبش صاحب بھی بہت سی تنظیموں میں سیاسی طور پر ایکٹو تھے اور یہی وجہ تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اپنے پرانے واقفکاروں سے رابطہ کرکے اُنہیں ایک کانفرنس میں شمولیت کی دعوت دی۔ آپ اُس وقت پگڑی پہنتے تھے لیکن یہ ہمارے لئے کوئی عجیب بات نہیں تھی کیونکہ بہت سے لوگ عجیب قسم کے کپڑوں اور ٹوپیوں میں دیکھنے کو ملتے تھے۔ بہرحال ہم کانفرنس میں شامل ہوکر لطف اندوز ہوئے۔ اس ملاقات میں ہم نے اسلام کے بارہ میں کوئی بات نہیں کی اور نہ یہ کانفرنس کا موضوع تھا۔ مَیں نے آپ سے اپنی شاعری بھجوانے کی درخواست کی جو مَیں نے اپنے اخبار “Vollmond” میں دو بار شائع بھی کی۔
محترم ہیوبش صاحب کی شخصیت میں اسلام قبول کرنے کے بعد حیرت انگیز تبدیلی آئی تھی۔ وہ ایک پُرجوش شخصیت تھے اور ہر کسی کو متحرّک کرنا جانتے تھے۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے تاکہ وہ اپنی ذات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں ۔ ہماری دوسری ملاقات قادیان میں اچانک ہوئی جب مَیں احمدی نہیں ہوا تھا۔ اور پھر مجھے ایک جیتے جاگتے درویش قسم کے شخص کے طور پر آپ کو جاننے کا موقع ملا۔ اُس وقت مجھے پتہ چلا کہ آپ کے لئے تبلیغ کی کتنی اہمیت تھی۔ساری زندگی ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے کے باوجود وہ خود لوگوں کو ڈھونڈتے، اُن کی طرف جاتے اور تبلیغ کرتے۔ بعض دفعہ مناظرے بھی کرتے۔ آپ ایک ذی فہم روح تھے جو جہاندیدہ بھی تھے۔ گفتگو کا ڈھنگ بھی آتا تھا۔ اُس وقت میرے پاس ایک پرانی گاڑی تھی جس پر ہم پورے جرمنی میں پھرتے۔ آپ اپنی شاعری پیش کرنے کے لئے بھی مختلف پروگرام بنایا کرتے جو کسی ہال یا ریستوران میں ہوتے۔ آپ کی شاعری کا مقصد صرف لطف اندوز ہونا نہیں تھا بلکہ آپ اپنی تخلیق کے ذریعہ دلوں تک پہنچنا چاہتے تھے تاکہ وہاں اسلام کا بیج بوسکیں ۔
آپ کی بے شمار اسلامی خدمات بیان کی جاسکتی ہیں لیکن پھر بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ رہتا ہے۔ کافی لمبا عرصہ آپ جماعت کے واحد ترجمان رہے۔ بلکہ آپ دراصل جماعت کا چہرہ تھے۔ لکھنے لکھانے کے حوالہ سے ہر کام کے لئے آپ کی طرف دیکھا جاتا تھا۔ آپ کا وسیع مطالعہ تھااور زبان پر مہارت حاصل تھی۔ طرز استدلال ایسا تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ ایک ریڈیو ڈرامہ لکھنے پر آپ کو ہیسن کا ادبی انعام ملا تھا۔ اس ڈرامہ میں آپ نے منشیات سے متعلق اپنے احساسات اور تجربات بیان کئے تھے۔ آپ کا لغت کا خزانہ اتنا وسیع تھا کہ ہر چیز کے بارے میں الفاظ ڈھونڈ لیتے تھے۔ پھر آپ کو جب دس ہزار مارک کا یہ انعام ملا تو اس میں سے چھ یا سات ہزار آپ نے جماعت کو دے دیئے۔ یہ وہ سال تھا جب مرکز نے جماعت جرمنی کا چندہ دیکھ کر کہا کہ آئندہ اپنا خرچ خود اٹھائیں ۔
محترم ہیوبش صاحب کو کئی بار مَیں بیت السبوح میں کام سے فارغ ہوکر رات کے بارہ ایک بجے فون کرتا تو وہ جاگ رہے ہوتے کیونکہ وہ رات کو کام کرنے کے عادی تھے۔ تب مَیں گھر جانے سے پہلے آپ کے پاس چلا جاتا، اپنی پریشانیاں اُن کو بتاتا۔ آپ مجھ پر تنقید بھی کرتے۔ دراصل آپ کی صاف گوئی کی وجہ سے کئی لوگ آپ سے نالاں بھی ہوجاتے تھے۔ تاہم آپ کی اندرونی سچائی نے آپ کے چہرہ کو ایک اطمینان بخش مسکراہٹ دی ہوئی تھی۔ آپ کے پاس بیٹھنا بھی بہت ایمان بخش ہوتا۔ کئی بار تو کوئی بات بھی کرنے کی نہ ہوتی لیکن مَیں پھر بھی آپ کے پاس جاکر بیٹھنے میں سکون محسوس کرتا۔ آپ کا خداتعالیٰ سے بہت مستحکم تعلق تھا اور دعا پر غیرمعمولی یقین تھا۔ کبھی مَیں زیادہ پریشان ہوتا تو آپ کسی کاغذ پر دو تین شعر لکھ کر مجھے دیتے جن کو پڑھ کر میری ڈھارس بندھتی۔ کبھی کسی نظم میں آپ کسی خاص کام کے کرنے کی طرف توجہ دلادیتے۔
آپ کے ساتھ احمدی نوجوانوں کا بہت گہرا تعلق تھا جو آپ سے اپنے ہر قسم کے معاملات میں مشورہ اور دعا حاصل کرتے۔
آپ کی وفات پر جرمن میڈیا نے بہت مثبت ردّعمل دکھایا۔ FAZ اخبار جس کے آپ کسی زمانہ میں ایڈیٹر رہے تھے۔ بعد میں آپ کے پگڑی پہننے اور چھڑی پکڑنے پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے آپ کو ملازمت سے سبکدوش کردیا۔ بعد میں آپ کی تحریروں کو بھی پورا شائع نہ کرتے۔ لیکن آپ کی وفات کے بعد اس اخبار نے آپ کے ایک اہم خط کو پورا شائع کردیا اور اس کے نتیجہ میں اسلام سے متعلق ایک مشہور بحث بھی جاری رہی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں