محترم کیپٹن ڈاکٹربشیر احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 ؍جولائی 2006ء میں مکرمہ بشریٰ مظفر صاحبہ نے اپنے مضمون میں اپنے والد محترم کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
محترم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب 27؍جولائی 1906ء کو سیالکوٹ کے گاؤں بوبک متراں میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ 21 سال کی عمر میں ڈاکٹری کا کورس پاس کیا اور دوسری جنگ عظیم میں بطور ڈاکٹر بھرتی ہوگئے۔ دوسرے سال میں ترقی کرکے کیپٹن بن گئے۔ تیسرے سال برما کے محاذ پر بہادری کا تمغہ یعنی ملٹری کراس حاصل کیا۔ اسی وجہ سے ضلع لائلپور (فیصل آباد) کے گاؤں دسوہہ میں ایک مربع زمین انعام میں ملی۔ 1946ء میں واپس آگئے۔ اُسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں یہ سکیم عرض کی کہ ہمیں افریقہ میں ہسپتال کھولنے چاہئیں جو دعوت الی اللہ کے لحاظ سے سودمند ہوں گے اور ساتھ عیسائیوں کی طبی مساعی کی مثالیں دیں اور آخر میں اپنے آپ کو اس کارخیر کے لئے پیش کردیا۔ آپ کی بیوی وہ درخواست لے کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو حضورؓ نے فرمایا: ڈاکٹر کو کہنا وقف میں بہت تکلیفیں ہوتی ہیں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، وہ اعلیٰ جگہ پر فائز رہا ہے۔
بہرحال آپ درخواست دے کر واپس گاؤں آگئے۔ کچھ عرصہ بعد حضورؓ کا جواب مل گیا۔ فرمایا: ’’کشمیر اور سرینگر جاؤ، وہاں جاکر اپناکلینک کھولو۔ اپنی گرہ سے روپیہ لگاؤ۔ جو آمد ہو اس میں سے نصف اپنے خرچ کے لئے رکھو اورنصف جماعت احمدیہ کو بھیج دو۔ نیز جو واقفین کا الاؤنس 125/- روپے ہے، وہ الگ ملتا رہے گا اور وہاں جاکر بہائیت کا مقابلہ کرو۔ ایک مہینہ کی ٹریننگ بہائی مذہب کے خلاف قادیان سے حاصل کرکے جاؤ‘‘۔ چنانچہ حسب حکم 31؍مارچ 1947ء کو سرینگر پہنچ کر کلینک کھول لیا۔ پہلے مہینہ میں نوسو روپے آمد ہوئی۔ نصف روپے قادیان بھیجے تو حضورؓ نے روپیہ وصول کرنے کے بعد فرمایا کہ اب انجمن کو روپیہ نہ بھیجنا۔ جو انجمن کا حصہ ہے وہ بھی کلینک میں ڈالو اور کلینک پوری طرح سنبھالو۔ پانچ ماہ بعد پاکستان بن گیا تو آپ بیوی بچوں کو اپنے گاؤں چھوڑ کر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ نے فرمایا: کشمیر واپس جاکر پاکستان کے حق میں پراپیگنڈہ کرو۔ چنانچہ آپ مری کے راستے دوبارہ کشمیر چلے گئے۔
آپ کشمیر پہنچے تو وہاں سے خزانہ، مہاراجہ اور وزراء وغیرہ سب دہلی جاچکے تھے۔ آپ نے کوشش کی کہ پاکستانی فوج جلد وہاں پہنچے لیکن پاکستان اپنی مصیبت اور کم مائیگی کی وجہ سے کچھ نہ کرسکا اور چوتھے روز ہندوستانی جہاز آگئے۔ غلام محمد بخشی اور شیخ عبداللہ احمدیوں کے دشمن ہوگئے۔ چنانچہ چار دفعہ آپ کے وارنٹ گرفتاری آئے۔ کلینک کے پاس ہی پولیس چوکی تھی۔ وہاں کا تھانیدار ایک ہمدرد سید تھا۔ ہر دفعہ آپ کی حمایت میں رپورٹ لکھ کر وارنٹ واپس کر دیتا اور آپ کو بتا دیتا۔ دسمبر میں جب پانچویں مرتبہ وارنٹ آئے اورپولیس افسر کو تنبیہ بھی آئی تو وہ آکر کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اب یہاں سے نکل جانے کی کوششیں کرو، اب میرے بس کی بات نہیں، بخشی غلام محمد آپ کے درپے ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب واقف زندگی تھے۔ حضورؓ کے حکم کے بغیر واپس نہیں آسکتے تھے۔ خواجہ غلام نبی گلکار کے ذریعے حضورؓ نے آنے کی اجازت دیدی۔ پانچ اور احباب بھی تھے جو کہ سرینگر سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے۔ ایک بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعودؓ حویلیاں کی پہاڑی پر کھڑے بلند آواز سے ہاتھ کے اشارہ سے فرمارہے ہیں: اس طرف سے آجاؤ۔ چنانچہ خواب سے رہبری مل گئی۔ چند گھنٹوں میں کلینک سمیٹا۔ گھریلو سامان سید سردار احمد صاحب کے گھرڈالا اور سب احباب دن کے پچھلے پہر ایک ٹانگہ پر سوار ہوکر سرحد پار کرنے لگے۔ سرینگر کے چاروں طرف پہرہ تھا۔ کئی جگہ سنتری آواز دیتا کون ہے۔ ٹانگے والا جواب دیتا: ڈاکٹر بشیر صاحب جارہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا نام سن کر سپاہی گزر جانے دیتا۔ اسی طرح حویلیاں کے رستے پیدل آٹھ روز کی مسافت طے کرکے برف پر سے پھسلتے ہوئے یہ احباب پاکستان پہنچ گئے اور 18؍ دسمبر کی صبح لاہور پہنچ کر حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ ناشتہ کی چوکی پر بیٹھے تھے۔ جلدی میں باہر تشریف لائے اور حالات دریافت فرمائے۔ نیز فرمایا کہ گھر جاکر بیوی بچوں کو مل آؤ، میں تمہیں قادیان بھجوانا چاہتاہوں۔
1947ء کا جلسہ سالانہ لاہور میں ہوا اور 3؍جنوری 1948ء کو مکرم ڈاکٹر صاحب قادیان بھجوادئے گئے۔ اُس وقت چھ بیٹیاں تین بیٹے دو بیویاں اور ایک بوڑھی ماں آپ کے زیر کفالت تھیں۔ قادیان کے حالات نہایت مخدوش تھے۔ کچھ ادویات ڈاکٹر احسان الحق صاحب کی دوکان سے اور کچھ دیگر مختلف گھروں سے نکلیں تو وہاں پر کلینک کا کام شروع کردیا۔ غالباً چھ سات ماہ تو اسی طرح گزر گئے۔ درویش اپنے مخصوص حلقہ سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔ ایک روز آپ اور فضل الٰہی خان صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر دعا کررہے تھے کہ ایک سکھ عورت بھی مزار پر آکر دعا کرنے لگی۔ اس کا داماد بیمار تھا۔ اس عورت نے ان دونوں احباب سے بھی التجا کی کہ میرے داماد کے لئے دعاکرو۔ خانصاحب نے فرمایا کہ مائی جی! ہم دعا بھی کرتے ہیں اور یہ ڈاکٹر صاحب علاج بھی کریں گے۔ وہ عورت ننگل سے آئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خطرہ کے پیش نظر ہم نہیں جاسکتے۔ ادھر بہشتی مقبرہ کے دروازے پر لے آؤ۔ مریض دروازے پر لایا گیا۔ مریض دیکھا اور اس بڑھیا کو ساتھ لے کر محلہ احمدیہ میں آگئے۔ دوائی دی، چند روز میں وہ صحت یاب ہو کر چل کر آگیا۔ چند دنوں میں مریضوں کا تانتا بندھ گیا۔ مخالفوں کی طرف سے بہت شور اٹھا مگر مریضوں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ اس طرح سے آزادی کا تھوڑا سا رستہ کھل گیا۔ مریضوں کے ذریعے سے ضروری اشیاء خریدی جانے لگیں۔ پھر پہرہ میں باہرجا کر بھی مریض دیکھنے لگے۔ پھر انجمن سے مدد مانگی کہ اب باقاعدہ ہسپتال کھولنا چاہئے۔ انجمن سے 80 روپے لے کر کام شروع کردیا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے مکان کو ہسپتال بنالیا اور قریب قریب کے تین مکانوں کو ان ڈور مریضوں کے لئے استعمال کرنے لگے۔ درویشوں کی طبی خدمت ہسپتال کی آمد سے ہوتی۔ یہاں تک کہ جب امرتسر بھی کسی کو بھیجنا ہوتا تو وہ بھی اسی فنڈ سے دیتے۔ ضعیف درویشوں کو دودھ اور مکھن بھی دیا جاتا۔ آخر 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے سوئٹزرلینڈ سے تار بھیجا کہ آپ کو پاکستان بھیج دیاجائے۔ چنانچہ 7؍جولائی 1955ء کو کھوکھراپار کے رستہ آپ پاکستان میں داخل ہوئے اور 8؍جولائی 1955ء کو ربوہ پہنچے۔ اس وقت ربوہ کے ہسپتال میں کوئی ڈاکٹر نہ تھا۔ حضورؓ علاج کی غرض سے یورپ جاچکے تھے۔ مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی حضورؓ کے ساتھ ہی تھے۔ آپؓ نے آتے ہی کام سنبھال لیا اور نہایت ذمہ داری سے فرائض سرانجام دیئے۔ آپ بہت اچھے سرجن بھی تھے۔ فروری 1957ء میں دل کی تکلیف ہوجانے کے بعد فراغت کی درخواست دیدی اور پھر ربوہ میں ہی کلینک کھول لیا۔ حضورؓ کی اجازت سے لائلپور کی زرعی زمین فروخت کرکے ربوہ کے نواح میں زمین خریدکر کاشت شروع کرادی۔
جب آپ پر 1957ء میں دل کا پہلا حملہ ہوا تو آپ کی پہلی اہلیہ کے بچے جوان تھے۔ تین کی شادی ہوچکی تھی۔ البتہ دوسری اہلیہ کے بچے بہت چھوٹے تھے۔ چنانچہ دوسری اہلیہ گھبراہٹ میں حضرت مولوی غلام رسول راجیکی صاحبؓ کے پاس گئیں اور عرض کیا کہ آپ اللہ میاں سے پوچھیں کہ ڈاکٹر صاحب کی عمر کتنی ہے۔ انہوں نے دعا کرکے بتایا کہ آواز آئی ہے کہ 12×6=72۔ یعنی عمر 72 سال ہے۔ آپ کی اہلیہ کے لئے ان دنوں 72 ہفتے بھی بہت بڑی خوشخبری تھی۔ لیکن پھر بھی کہا کہ میری سب بچیاں تو اس عمر تک نہیں بیاہی جائیں گی۔ فرمانے لگے: پتر! اتنی عمر تو لے اور مانگ لیں گے۔ اس دوران بڑی بیماریاں آئیں۔ کئی مرتبہ دل پر حملے ہوئے۔ خداتعالیٰ اپنے فضل سے بچاتا رہا۔ آخر آپ کی عمر 70 برس ہوگئی۔ آپ کی اہلیہ کو گھبراہٹ تھی کہ چار بچے ابھی زیر تعلیم تھے اور وقت آن پہنچا ہے۔ اب وہ حضرت مولوی عبداللطیف صاحبؓ بہاولپوری کے پاس گئیں اور حضرت مولوی راجیکی صاحبؓ کی قبولیت دعا کا واقعہ سناکر ڈاکٹر صاحب کی درازی عمر کی دعا کے لئے درخواست کی۔ اگلے دن حضرت مولوی صاحبؓ کا خط ملا کہ 9سال مزید عمر مانگ لی ہے۔
1987ء میں محترم ڈاکٹر صاحب جلسہ سالانہ لندن پر آئے۔ پھر لندن ، سویڈن، ناروے اپنی بیٹیوں کے پاس کچھ وقت قیام کیا۔ 8؍اکتوبر کو واپس ربوہ پہنچ گئے جہاں 11 نومبر 1987ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے وفات پائی۔
محترم ڈاکٹر صاحب نہایت کامیاب زندگی گزارنے کے باوجود بہت خاکسار انسان تھے۔ بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔ چھٹیاں ہوتے ہی سلسلہ کی کتب بچوں میں بانٹ دی جاتیں کہ چھٹیوں میں پڑھ کر انہیں ختم کرنا ہے۔ تہجدگزار اور دعاگو تھے۔ اپنے مریضوں کے لئے بھی باقاعدہ دعا کرتے۔
آپ نے بہت ہی مصروف زندگی گزاری ہے۔ مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ وفات سے کچھ دن پہلے کسی نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب پچھلے پندرہ سال سے آپ کو اسی حالت میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ کی صحت کا راز کیا ہے؟ فرمایا: ’’کم کھانا اور زیادہ کام کرنا‘‘۔
آپ رشتہ داروں اور دوستوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان سے پیسے نہیں لیتے تھے۔ اپنے محلہ میں کبھی کسی کے گھر مریض دیکھنے جاتے تو فیس کے پیسے نہیں لیتے تھے۔ کوئی گھر آجائے تو دوائی کے پیسے نہیں لیتے تھے۔ بہت متوکّل اور قانع انسان تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں