محترم چودھری بشیر احمد صاحب

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا ستمبر 1997ء میں محترم چودھری بشیر احمد صاحب کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے آپ کی اہلیہ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ رقمطراز ہیں کہ محترم چودھری صاحب 20؍اگست 1996ء کی صبح حسب معمول بیت الاسلام ٹورانٹو تشریف لے گئے جہاں اچانک دوپہر کے وقت آپ کی وفات ہوگئی۔ ان کے ساتھ میرا گزارا ہوا عرصہ حیات 51 برس پر پھیلا ہوا ہے۔وہ ہر حال میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز رہتے اور بچپن سے ہی نہایت نیک اور شریف النفس بچے کے طور پر مشہور تھے۔ جوانی میں بھی ان کے اطوار بزرگوں جیسے تھے۔ اسلام اور احمدیت کے عاشق اور خلافت کی اطاعت کو اپنا فرض عین سمجھتے۔ اپنی ملازمت کے سلسلے میں جہاں بھی گئے وہاں سب سے پہلے جماعت کے ساتھ رابطہ کرتے، جماعت نہ ہوتی تو تبلیغی امور میں مصروف ہوجائے۔ 20 سال نیوی کی ملازمت کرکے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے مشورے پر مرچنٹ نیوی میں آگئے۔ بارہا ’’جزیرہ مڈغاسکر‘‘ گئے جہاں آپ کی تبلیغی کوششوں سے جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ جس کا حضور انور ایدہ اللہ نے نہایت محبت سے ایک خطبہ جمعہ میں ذکر فرمایا۔
ایک بار میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میرے میاں کی ترقی میں رکاوٹیں ہیں اگر حضورؓ مشورہ دیں تو کوئی اور ملازمت کرلیں۔ حضورؓ نے فرمایا ’’بشیر احمد تو وہاں جماعت کا بہت اچھا کام کر رہے ہیں، ہمیں تو ایسے آدمی ہر محکمہ میں چاہئیں، میں دعا کروں گا‘‘۔ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ نے ترقیات کے بے شمار مواقع پیدا کردیئے۔
محترم چودھری صاحب آنحضورﷺ کے عاشق تھے۔ ہر وقت باوضو رہتے اور کثرت سے درود شریف پڑھا کرتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کا نعتیہ کلام کثرت سے یاد تھا جسے بہت سریلی اور درد بھری آواز میں اکثر پڑھتے۔ آپؑ کا قصیدہ روزانہ سونے سے پہلے اور صبح اٹھ کر روزانہ پڑھتے۔ خود بھی اردو اور فارسی میں نعتیہ نظمیں کہیں۔ رات سونے سے پہلے اجتماعی دعا کرواتے۔ صاحبِ کشوف تھے۔ اکثر آنحضورﷺ کی زیارت بھی ہوتی تھی۔ آپ اول وقت پر نماز ادا کرتے۔ اشراق، تہجد اور نوافل باقاعدگی سے ادا کرتے۔ نوافل خصوصاً تہجد میں ایسی گریہ و زاری کرتے کہ اکثر ان کے تضرع سے آنکھ کھل جاتی۔
محترم چودھری صاحب امانت و دیانت کا حد درجہ خیال رکھنے والے تھے۔ اگر ذاتی کام کے لئے خط لکھنا ہوتا تو اپنا قلم کاغذ استعمال کرتے۔ ایک بار اپنے بیٹے کے ساتھ سفر سے پہلے گاڑی میں سوار ہونے سے پہلے ٹکٹ نہ لے سکے تو واپس آکر اپنے بیٹے سے ٹکٹ منگواکر پھاڑ دیئے اور کہا کہ ہم جاتی دفعہ ٹکٹ نہ لے سکے تھے … بے شک حکومت کے افسران کو تو پتہ نہیں لیکن خدا تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔
1974ء کے فسادات کے وقت محترم چودھری صاحب بسلسلہ ملازمت سنگاپور میں تھے۔ آپ کے ایک بیٹے منیر احمد مربی سلسلہ کو اسیر راہ مولیٰ بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ کھاریاں میں جہاں ان کی فیملی مقیم تھی وہاں کئی بار فساد ہوا اور جلوس نے گھر پر حملہ آور ہوکر آگ لگانے کی کوشش بھی کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار انہیں ناکام بنادیا۔ نومبرمیں جب چودھری صاحب دو ماہ کیلئے وطن واپس آئے تو اپنے گاؤں سماعیلہ بھی گئے جہاں کے غیراحمدیوں نے احمدیوں کو مسجد سے نکال دیا تھا۔ آپ نے بات چیت کرکے احمدیہ مسجد کے لئے زمین حاصل کی اور مسجد بھی تعمیر کروائی۔ آپ بڑے اولوالعزم، بلند حوصلہ اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان تھے۔ فرمایا کرتے ’’بشیر احمد کی سرشت میں ناامیدی نہیں ہے‘‘۔
محترم چودھری صاحب کے والد اپنے علاقے کے مانے ہوئے عالم تھے اور والدہ نے بھی بے شمار عورتوں اور بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی سعادت حاصل کی تھی اور وہ بڑی خدا ترس اور نافع الناس وجود تھیں۔ محترم چودھری صاحب کو خوبیاں وراثت میں عطا ہوئی تھیں۔ نیوی کی ملازمت کے دوران 1962ء سے 1974ء تک ہر سال حج کی توفیق پائی۔ نیز اپنے والدین اور دوسرے عزیزوں کی طرف سے بھی بارہ حج کئے اور بیشمار عمرے بھی ادا کئے۔ حضور انور ایدہ اللہ کی علمی تحقیق کی تحریک پر خود کو پیش کیا اور خدمت کی توفیق پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں