محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17 اکتوبر 2009ء میں محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے بارہ میں مکرم ناصر احمد خالدصاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
ڈاکٹر سلام کے لاہور پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں فیض میموریل لیکچر دینے کا اعلان اخبارات میں ہوا تو فیض صاحب کی بیٹی پروفیسر سلیمہ ہاشمی اور داماد پروفیسر شعیب ہاشمی کے بقول یہ لاہور میں سائنس کا کھڑکی توڑ ہفتہ تھا۔ کیونکہ ہوٹل کے ہال میں 800 لوگوں کی گنجائش ہے اور دس ہزار سے زیادہ لوگوں کو انکار کیا گیا ہے۔
اس لیکچر کے لئے سیکیورٹی کے خاص انتظامات کئے گئے تھے اور منتظمین بھی خاصے فکرمند تھے۔ کیونکہ ڈاکٹر سلام کا پنجاب یونیورسٹی میں لیکچر پُرتشدد احتجاج کے باعث منسوخ کرنا پڑا تھا۔ بعد میں سلام صاحب لیکچر دینے جب اسلام آباد گئے تو پھر ہنگامہ آرائی کی گئی اور رینجرز اور پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنا پڑی۔
اس پس منظر میں منتظمین کی تشویش بالکل بجا تھی لیکن خداتعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور پاکستان میں ڈاکٹر صاحب کا پہلا اور شاید آخری پبلک لیکچر بہت عمدگی اور امن سے ہوگیا۔ جس پر فیض فاؤنڈیشن والے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے لیکچر دینے سے قبل فرمایا کہ (ڈاکٹر) محبوب الحق (جنرل ضیاء کے وزیر خزانہ) نے کہا ہے کہ سلام پاکستان آنے سے ڈرتا ہے۔ مَیں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ مَیں پاکستان آنے سے نہیں ڈرتا بلکہ میرے دوست مجھے یہاں بلانے سے ڈرتے ہیں۔ اِس بات پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
ڈاکٹر سلام نے فیض میموریل لیکچر کے شروع میں کہا کہ جب یورپ میں میرے دوستوں کو علم ہوا کہ مَیں اس لیکچر کے لئے پاکستان جارہا ہوں تو انہوں نے بہت حیرانگی کا اظہار کیا کہ سلام سائنس کا آدمی ہے اور فیض شعر و شاعری کی دنیا کا باسی اور حسن و عشق کی باتیں کرنے والا! دونوں عالمی شخصیات دو مختلف دنیاؤں کی رہنے والی ہیں تو ان میں قدر مشترک کیا ہے؟
ڈاکٹر سلام نے اس بات کا جواب یہ دیا کہ مَیں اور فیض دونوں دوسرے ملکوں میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دونوں ہی حکومت پاکستان کے نزدیک ناپسندیدہ اشخاص ہیں۔
سلام کی فیض سے بہت دوستی تھی۔ ایک دفعہ دونوں کو خراب موسم کی وجہ سے یورپ کے کسی ایئرپورٹ پر مجبوراً کئی گھنٹے رکنا پڑا۔ اس موقع پر سلام کی فرمائش پر فیض نے اپنے ہاتھ سے اپنی مشہور نظم ؎

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ نہ کوئی سر اٹھا کر چلے

سلام کی ذاتی ڈائری پر لکھ کر دی۔
ربوہ میں ایک تقریب کے دوران پروفیسر منور شمیم خالد صاحب نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب سے دریافت کیا کہ نوبیل پرائز ملنے کے بعد دنیا کی کئی یونیورسٹیوں نے آپ کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی ہے۔ آپ کس یونیورسٹی کے استقبال سے سب سے زیادہ متأثر ہوئے ہیں؟ تو سلام نے فوراً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام لیا۔ تفصیل اس استقبال کی یہ ہے کہ سارا شہر اور یونیورسٹی کے طلباء شہر سے کئی میل باہر استقبال کے لئے جمع ہوگئے۔ جب سلام کار میں وہاں پہنچے تو طلباء نے کار کا انجن بند کرا دیا اور ازراہ محبت و عقیدت گاڑی کو اپنے ہاتھوں سے دھکا دے کر یونیورسٹی کیمپس تک لے کر گئے۔
ڈاکٹر صاحب کے پاکستان میں چار بہت عزیز شاگرد ہیں۔ ایک ڈاکٹر پروفیسر پرویز ہود بھائی جو قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں فزکس کے پروفیسر، دانشور اور کالم نگار ہیں۔ دوسرے عزیز شاگرد ڈاکٹر پروفیسر مجاہد کامران ہیں جو آجکل پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ تیسرے شاگرد ڈاکٹر پروفیسر غلام مرتضیٰ ملک اور چوتھے ڈاکٹر پروفیسر انیس عالم ہیں۔
پاکستان کی مختلف حکومتوں نے ڈاکٹر سلام سے احمدی ہونے کی بناء پر جو ظالمانہ اور ناروا سلوک کیا اُس کی تفصیل بہت دردناک ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دَور میں UNO کے ادارے یونیسکو میں ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ خالی ہوئی تو ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ اس پوسٹ پر فائز ہو کر تیسری دنیا اور پاکستان کی خدمت کریں۔ اُس وقت کے پاکستان کے وزیرخارجہ جنرل یعقوب خان نے حکومتی پالیسی کے تحت انہیں نامزد کرنے سے انکار کردیا اور ایک اخباری اعلان میں یہ کہا کہ حکومت پاکستان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک قادیانی ڈاکٹر سلام کو اس پوسٹ کے لئے نامزد کرسکے۔ اس پر اٹلی اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک نے سلام صاحب کو اپنی شہریت کی پیشکش کی اور یہ بھی کہا کہ آپ کی نامزدگی کے بعد دنیا کا کوئی دوسرا ملک اپنا نمائندہ نامزد نہیں کرے گا اور آپ بلا مقابلہ منتخب ہوجائیں گے۔ مگر محب وطن اور سچے پاکستانی سلام نے کسی اور ملک کی شہریت قبول کرنے سے انکار کردیا۔
ٹریسٹے (اٹلی) کے آئی ٹی سی سینٹر کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر عبدالسلام نے 1964ء سے 1994ء تک انتھک خدمات سرانجام دیں۔ ریٹائرمنٹ پر آپ کے اعزاز میں جو پُروقار الوداعی تقریب منعقد ہوئی اُس میں دنیا کے ہر خطّہ سے سینکڑوں سائنسدان جمع ہوئے۔ ان میں دس نوبیل انعام یافتہ سائنسدان بھی شامل تھے۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر ڈاکٹر سلام کو اُن کے علمی کارناموں پر خراج تحسین پیش کیا۔ یہ افراد ڈاکٹر سلام کے سامنے آکر رکتے۔ عقیدت سے سرجھکاتے اور الوداعی الفاظ ادا کرتے ہوئے انہیں سلام کرتے اور آگے گزر جاتے۔ اس خصوصی تقریب میں موجود ڈاکٹر پرویز ہود بھائی بیان کرتے ہیں کہ اس شاندار الوداعی تقریب میں کسی طرح ایک پاکستانی طالب علم نے اپنی باری پر جھک کر سلام صاحب کو سلام کیا اور عقیدت کے پھول پیش کرنے کے بعد کہا ’’سر! میں پاکستان سے آیا ہوں اور پاکستان کو آپ پر فخر ہے‘‘۔ اپنے پیارے وطن پاکستان کا نام سن کر ڈاکٹر صاحب نے کندھوں کو اچکا۔ ان کا جسم کانپنا شروع ہوگیا۔ پاکستان کے لفظ نے ان کے وجود ان کی روح اور دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ کچھ لمحے بول نہ سکے اور بے اختیار آنسو ان کی آنکھوں سے نکل کر رخساروں سے نیچے بہنے لگے۔ اس تقریب کی فضا غمناک اور افسردہ ہوگئی۔ اس وقت یقینا ان کے دل میں یہ خیال گزرا ہوگا کہ وہ اس عظیم درسگاہ کو اٹلی کی بجائے اپنے وطن پاکستان میں کیوں قائم نہ کرسکے!
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈیا کے پروفیسر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’عبدالسلام ایک فرد کا نہیں ایک تحریک کا نام ہے۔ دنیا سے غربت اور جہالت مٹانے کی یہ تحریک ہے۔ علم و دانش کی، عمل و جفاکشی کی، اپنے تہذیبی ورثہ میں جائز فخر کی، طاقتور ممالک کے ظلم و استحصال کے خلاف جہاد کی‘‘۔
آخر سلام کی جلاوطنی 1996ء کے آخر میں اُس وقت ختم ہوگئی جب وہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں اپنے بزرگ والدین کے پہلو میں دفن ہوئے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں